Jump to content

دیکھ کبیرا رویا

From Wikisource
دیکھ کبیرا رویا (1950)
by سعادت حسن منٹو
325091دیکھ کبیرا رویا1950سعادت حسن منٹو

نگر نگر ڈھنڈورا پیٹا گیا کہ جو آدمی بھیک مانگے گا اس کو گرفتار کرلیا جائے۔ گرفتاریاں شروع ہوئیں۔ لوگ خوشیاں منانے لگے کہ ایک بہت پرانی لعنت دور ہوگئی۔کبیر نے یہ دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ لوگوں نے پوچھا، ’’اے جولاہے تو کیوں روتا ہے؟‘‘

کبیر نے رو کر کہا، ’’کپڑا دوچیزوں سے بنتا ہے۔ تانے اور پیٹے سے۔ گرفتاریوں کا تانا تو شروع ہوگیا پر پیٹ بھرنے کا پیٹا کہاں ہے؟‘‘

ایک ایم اے۔ ایل ایل بی کو دو سو کھڈیاں الاٹ ہوگئیں۔ کبیر نے یہ دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ ایم اے۔ ایل ایل بی نے پوچھا،’’اے جولاہے کے بچے تو کیوں روتا ہے۔۔۔؟ کیا اس لیے کہ میں نے تیرا حق غصب کرلیا ہے؟‘‘

کبیر نے روتے ہوئے جواب دیا، ’’تمہارا قانون تمہیں یہ نکتہ سمجھاتا ہے کہ کھڈیاں پڑی رہنے دو، دھاگے کا جو کوٹا ملے اسے بیچ دو۔ مفت کی کھٹ کھٹ سے کیا فائدہ۔۔۔ لیکن یہ کھٹ کھٹ ہی جولاہے کی جان ہے!‘‘

چھپی ہوئی کتاب کے فرمے تھے، جن کے چھوٹے بڑے لفافے بنائے جا رہے تھے۔ کبیر کا ادھر سے گزر ہوا۔ اس نے وہ تین لفافے اٹھائے اور ان پر چھپی ہوئی تحریر پڑھ کر اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ لفافے بنانے والے نے حیرت سے پوچھا، ’’میاں کبیرتم کیوں رونے لگے؟‘‘

کبیر نے جواب دیا، ’’ان کاغذوں پر بھگت سُورداس کی کویتا چھپی ہے۔ لفافے بنا کر اس کی بے عزتی نہ کرو۔‘‘

لفافے بنانے والے نے حیرت سے کہا، ’’جس کا نام سُورداس ہے۔ وہ بھگت کبھی نہیں ہوسکتا۔‘‘

کبیر نے زار و قطار رونا شروع کردیا۔

ایک اونچی عمارت پر لکشمی کا بہت خوبصورت بت نصب تھا۔ چند لوگوں نے جب اسے اپنا دفتر بنایا تو اس بت کو ٹاٹ کے ٹکڑوں سے ڈھانپ دیا۔ کبیر نے یہ دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو امڈ آئے۔ دفتر کے آدمیوں نے اسے ڈھارس دی اور کہا، ’’ہمارے مذہب میں یہ بت جائز نہیں۔‘‘

کبیر نے ٹاٹ کے ٹکڑوں کی طرف اپنی نمناک آنکھوں سے دیکھتے ہوئے کہا، ’’خوبصورت چیز کو بدصورت بنا دینا بھی کسی مذہب میں جائز نہیں۔‘‘

دفتر کے آدمی ہنسنے لگے۔ کبیردہاڑیں مار مارکر رونے لگا۔

صف آرا فوجوں کے سامنے جرنیل نے تقریر کرتے ہوئے کہا، ’’اناج کم ہے، کوئی پروا نہیں۔ فصلیں تباہ ہوگئی ہیں، کوئی فکر نہیں۔۔۔ ہمارے سپاہی دشمن سے بھوکے ہی لڑیں گے۔‘‘

دو لاکھ فوجیوں نے زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کردیے۔

کبیر چلا چلا کے رونے لگا۔ جرنیل کو بہت غصہ آیا۔ چنانچہ وہ پکار اٹھا، ’’اے شخص، بتا سکتا ہے تو کیوں روتا ہے؟‘‘ کبیر نے رونی آواز میں کہا، ’’اے میرے بہادر جرنیل۔۔۔ بھوک سے کون لڑے گا؟‘‘دو لاکھ آدمیوں نے کبیر مردہ باد کے نعرے لگانے شروع کردیے۔

’’بھائیو، داڑھی رکھو ،مونچھیں کترواؤ اور شرعی پاجامہ پہنو۔۔۔ بہنو، ایک چوٹی کرو، سرخی سفیدہ نہ لگاؤ، برقع پہنو!‘‘ بازار میں ایک آدمی چلا رہا تھا۔ کبیر نے یہ دیکھا تو اس کی آنکھیں نمناک ہوگئیں۔ چلّانے والے آدمی نے اور زیادہ چلّا کر پوچھا، ’’کبیر تو کیوں رونے لگا؟‘‘ کبیر نے اپنے آنسو ضبط کرتے ہوئے کہا،’’تیرا بھائی ہے نہ تیری بہن، اور یہ جو تیری داڑھی ہے۔ اس میں تو نے وسمہ کیوں لگا رکھا ہے۔۔۔ کیا سفید اچھی نہیں تھی۔‘‘

چلّانے والے نے گالیاں دینی شروع کردیں۔ کبیر کی آنکھوں سے ٹپ ٹپ آنسو گرنے لگے۔

ایک جگہ بحث ہورہی تھی۔

’’ادب برائے ادب ہے۔‘‘

’’محض بکواس ہے، ادب برائے زندگی ہے۔‘‘

’’وہ زمانہ لد گیا۔۔۔ ادب، پروپیگنڈے کا دوسرا نام ہے۔‘‘

’’تمہاری ایسی کی تیسی۔۔۔‘‘

’’تمہارے اسٹالن کی ایسی کی تیسی۔۔۔‘‘

’’تمہارے رجعت پسند اور فلاں فلاں بیماریوں کے مارے ہوئے فلابیئر اور بادلیئر کی ایسی کی تیسی۔‘‘

کبیر رونے لگا ۔بحث کرنے والے بحث چھوڑ کر اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ ایک نے اس سے پوچھا، ’’تمہارے تحت الشعور میں ضرور کوئی ایسی چیز تھی جسے ٹھیس پہنچی۔‘‘

دوسرے نے کہا، ’’یہ آنسو بورژوائی صدمے کا نتیجہ ہیں۔‘‘

کبیر اور زیادہ رونے لگا۔ بحث کرنے والوں نے تنگ آکر بیک زبان سوال کیا، ’’میاں، یہ بتاؤ کہ تم روتے کیوں ہو؟‘‘

کبیر نے کہا، ’’میں اس لیے رویا تھا کہ آپ کی سمجھ میں آجائے، ادب برائے ادب ہے یا ادب برائے زندگی۔‘‘

بحث کرنے والے ہنسنے لگے۔ ایک نے کہا، ’’یہ پرولتاری مسخرہ ہے۔‘‘

دوسرے نے کہا، ’’نہیں یہ بورژوائی بہروپیا ہے۔‘‘

کبیر کی آنکھوں میں پھر آنسو آگئے۔

حکم نافذ ہوگیا کہ شہر کی تمام کسبی عورتیں ایک مہینے کے اندر شادی کرلیں اور شریفانہ زندگی بسر کریں۔ کبیر ایک چکلے سے گزرا تو کسبیوں کے اڑے ہوئے چہرے دیکھ کر اس نے رونا شروع کردیا۔ ایک مولوی نے اس سے پوچھا، ’’مولانا! آپ کیوں رو رہے ہیں؟‘‘کبیر نے روتے ہوئے جواب دیا،’’ اخلاق کے معلّم ان کسبیوں کے شوہروں کے لیے کیا بندوبست کریں گے؟‘‘

مولوی، کبیر کی بات نہ سمجھا اور ہنسنے لگا۔ کبیر کی آنکھیں اور زیادہ اشک بار ہوگئیں۔

دس بارہ ہزار کے مجمع میں ایک آدمی تقریر کررہا تھا، ’’بھائیو!بازیافتہ عورتوں کا مسئلہ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس کا حل ہمیں سب سے پہلے سوچنا ہے ۔اگر ہم غافل رہے تو یہ عورتیں قحبہ خانوں میں چلی جائیں گی، فاحشہ بن جائیں گی۔۔۔ سن رہے ہو، فاحشہ بن جائیں گی۔۔۔ تمہارا فرض ہے کہ تم ان کو اس خوفناک مستقبل سے بچاؤ اور اپنے گھروں میں ان کے لیے جگہ پیدا کرو۔۔۔ اپنے اپنے بھائی، یا اپنے بیٹے کی شادی کرنے سے پہلے تمہیں ان عورتوں کو ہرگز ہرگز فراموش نہیں کرناچاہیے۔

کبیر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ تقریر کرنے والا رک گیا۔ کبیر کی طرف اشارہ کرکے اس نے بلند آواز میں حاضرین سے کہا، ’’دیکھو اس شخص کے دل پر کتنا اثر ہوا ہے۔‘‘

کبیر نے گلو گیر آواز میں کہا، ’’لفظوں کے بادشاہ، تمہاری تقریر نے میرے دل پرکچھ اثر نہیں کیا۔۔۔ میں نے جب سوچا کہ تم کسی مالدار عورت سے شادی کرنے کی خاطر ابھی تک کنوارے بیٹھے ہو تو میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔‘‘

ایک دکان پر یہ بورڈ لگا تھا، ’’جناح بوٹ ہاؤس۔‘‘ کبیر نے اسے دیکھاتو زار و قطار رونے لگا۔

لوگوں نے دیکھا کہ ایک آدمی کھڑاہے۔ بورڈ پر آنکھیں جمی ہیں اور روئے جارہا ہے۔ انھوں نے تالیاں بجانا شروع کردیں، ’’پاگل ہے۔۔۔ پاگل ہے۔‘‘

ملک کا سب سے بڑا قائد چل بسا تو چاروں طرف ماتم کی صفیں بچھ گئیں۔ اکثر لوگ بازوؤں پر سیاہ بلے باندھ کر پھرنے لگے۔ کبیر نے یہ دیکھا تو اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ سیاہ بلّے والوں نے اس سے پوچھا، ’’کیا دکھ پہنچا جو تم رونے لگے؟‘‘

کبیر نے جواب دیا، ’’یہ کالے رنگ کی چندیاں اگر جمع کرلی جائیں تو سیکڑوں کی سترپوشی کرسکتی ہیں۔‘‘

سیاہ بلّے والوں نے کبیر کو پیٹنا شروع کردیا، ’’تم کمیونسٹ ہو، ففتھ کالمسٹ ہو،پاکستان کے غدار ہو۔‘‘

کبیر ہنس پڑا، ’’لیکن دوستو، میرے بازو پر تو کسی رنگ کا بلّا نہیں۔‘‘


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.