دیکھے اگر یہ گرمئ بازار آفتاب
Appearance
دیکھے اگر یہ گرمئ بازار آفتاب
سر بیچ کر ہو تیرا خریدار آفتاب
وہ حسن خود فروش اگر بے نقاب ہو
مہتاب مشتری ہو خریدار آفتاب
پوشیدہ گیسوؤں میں ہوا روئے پر ضیا
ہے آج میہمان شب تار آفتاب
اس کی تجلیوں سے کرے کون ہم سری
ہو جس کے نقش پا سے نمودار آفتاب
احباب کو حسنؔ وہ چمکتی غزل سنا
ہر لفظ سے ہو جس کے نمودار آفتاب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |