دیدہ ہے کہیں دل کہیں اور جان کہیں اور
Appearance
دیدہ ہے کہیں دل کہیں اور جان کہیں اور
بیٹھا تو ہوں یاں پر ہے مرا دھیان کہیں اور
کیوں سیر گلستاں کو ہم اس کوچہ سے جاویں
لگتا ہی نہیں دل کسی عنوان کہیں اور
دنیا میں گو مشکل کوئی آساں نہیں ہوتی
شاید کہ ہو مشکل مری آسان کہیں اور
فریاد کو جی چاہے تو جز کوچۂ جاناں
جانا نہ کبھی اے دل نادان کہیں اور
ہے طرفہ کہ تجھ سا نہ مرا دوست ہو ناصح
اور جاؤں سلانے میں گریبان کہیں اور
جس شہر میں ہم رہتے ہیں ہے جائے طلسمات
ایسی تو پری ہوں گی نہ انسان کہیں اور
اے منتظرؔ اس زلف کا تو چھیڑ نہ قصہ
ہو جاوے ترا دل نہ پریشان کہیں اور
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |