Jump to content

دو قومیں

From Wikisource
دو قومیں (1950)
by سعادت حسن منٹو
319970دو قومیں1950سعادت حسن منٹو

مختار نے شاردا کو پہلی مرتبہ جھرنوں میں سے دیکھا۔ وہ اوپر کوٹھے پر کٹا ہوا پتنگ لینے گیا تو اسے جھرنوں میں سے ایک جھلک دکھائی دی۔ سامنے والے مکان کی بالائی منزل کی کھڑکی کھلی تھی۔ ایک لڑکی ڈونگا ہاتھ میں لیے نہا رہی تھی۔ مختار کو بڑا تعجب ہوا کہ یہ لڑکی کہاں سے آگئی، کیونکہ سامنے والے مکان میں کوئی لڑکی نہیں تھی۔ جو تھیں، بیاہی جا چکی تھیں۔ صرف روپ کور تھی۔ اس کا پلپلا خاوند کالو مل تھا۔ اس کے تین لڑکے تھے اور بس۔

مختار نے پتنگ اٹھایا اور ٹھٹک کے رہ گیا۔۔۔ لڑکی بہت خوبصورت تھی۔ اس کے ننگے بدن پر سنہرے روئیں تھے۔ ان میں پھنسی ہوئی پانی کی ننھی ننھی بوندنیاں چمک رہی تھیں۔ اس کا رنگ ہلکا سانولا تھا، سانولا بھی نہیں۔ تانبے کے رنگ جیسا، پانی کی ننھی ننھی بوندنیاں ایسی لگتی تھیں جیسے اس کا بدن پگھل کر قطرے قطرے بن کر گر رہا ہے۔

مختار نے جھرنے کے سوراخوں کے ساتھ اپنی آنکھیں جما دیں اور اس لڑکی کو،جو ڈونگا ہاتھ میں لیے نہا رہی تھی، دلچسپی اور غور سے دیکھنا شروع کردیا۔ اس کی عمر زیادہ سے زیادہ سولہ برس کی تھی۔ گیلے سینے پر اس کی چھوٹی چھوٹی گول چھاتیاں جن پر پانی کے قطرے پھسل رہے تھے بڑی دل فریب تھیں۔ اس کو دیکھ کر مختار کے دل و دماغ میں سفلی جذبات پیدا نہ ہوئے۔ ایک جوان، خوبصورت اور بالکل ننگی لڑکی اس کی نگاہوں کے سامنے تھی۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ مختار کے اندر شہوانی ہیجان برپا ہو جاتا، مگر وہ بڑے ٹھنڈے انہماک سے اسے دیکھ رہا تھا، جیسے کسی مصور کی تصویر دیکھ رہا ہے۔

لڑکی کے نچلے ہونٹ کے اختتامی کونے پر بڑا سا تل تھا۔۔۔ بے حد متین، بے حد سنجیدہ، جیسے وہ اپنے وجود سے بے خبر ہے، لیکن دوسرے اس کے وجود سے آگاہ ہیں، صرف اس حد تک کہ اسے وہیں ہونا چاہیے تھا جہاں کہ وہ تھا۔بانھوں پر سنہرے روئیں پانی کی بوندوں کے ساتھ لپٹے ہوئے چمک رہے تھے۔ اس کے سر کے بال سنہرے نہیں، بھوسلے تھے جنہوں نے شاید سنہرے ہونے سے انکار کردیاتھا۔ جسم سڈول اورگدرایا ہوا تھا لیکن اس کو دیکھنے سے اشتعال پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مختار دیر تک جھرنے کے ساتھ آنکھیں جمائے رہا۔

لڑکی نے بدن پر صابن ملا۔ مختار تک اس کی خوشبو پہنچی۔ سلونے، تانبے جیسے رنگ والے بدن پر سفید سفید جھاگ بڑے سہانے معلوم ہوتے تھے۔ پھر جب یہ جھاگ پانی کے بہاؤ سے پھسلے تو مختار نے محسوس کیا جیسے اس لڑکی نے اپنا بلبلوں کا لباس بڑے اطمینان سے اتار کر ایک طرف رکھ دیا ہے۔غسل سے فارغ ہو کر لڑکی نے تولیے سے اپنا بدن پونچھا۔ بڑے سکون اور اطمینان سے آہستہ آہستہ کپڑے پہنے۔ کھڑکی کے ڈنڈے پر دونوں ہاتھ رکھے اور سامنے دیکھا۔ ایک دم اس کی آنکھیں شرماہٹ کی جھیلوں میں غرق ہوگئیں۔ اس نے کھڑکی بند کردی۔ مختار بے اختیار ہنس پڑا۔

لڑکی نے فوراً کھڑکی کے پٹ کھولے اور بڑے غصے میں جھرنے کی طرف دیکھا۔ مختار نے کہا، ’’میں قصور وار بالکل نہیں۔۔۔ آپ کیوں کھڑکی کھول کر نہا رہی تھیں؟‘‘ لڑکی نے کچھ نہ کہا۔غیض آلود نگاہوں سے جھرنے کو دیکھا اور کھڑکی بند کرلی۔

چوتھے دن روپ کور آئی۔ اس کے ساتھ یہی لڑکی تھی۔ مختار کی ماں اور بہن دونوں سلائی اور کروشیے کے کام کی ماہر تھیں، گلی کی اکثر لڑکیاں ان سے یہ کام سیکھنے کےلیے آیا کرتی تھیں۔ روپ کور بھی اس لڑکی کو اسی غرض سے لائی تھی کیونکہ اس کو کروشیے کے کام کا بہت شوق تھا۔ مختار اپنے کمرے سے نکل کر صحن میں آیا تو اس نے روپ کور کو پرنام کیا۔ لڑکی پر اس کی نگاہ پڑی تو وہ سمٹ سی گئی۔ مختار مسکرا کر وہاں سے چلا گیا۔لڑکی روزانہ آنے لگی۔ مختار کو دیکھتی تو سمٹ جاتی۔ آہستہ آہستہ اس کا یہ رد عمل دور ہوا اور اس کے دماغ سے یہ خیال کسی قدر محو ہوا کہ مختار نے اسے نہاتے دیکھا تھا۔

مختار کو معلوم ہوا کہ اس کا نام شاردا ہے۔ روپ کور کے چچا کی لڑکی ہے یتیم ہے۔ چیچو کی ملیاں میں ایک غریب رشتہ دار کے ساتھ رہتی تھی۔ روپ کور نے اس کو اپنے پاس بلالیا۔ انٹرنس پاس ہے۔ بڑی ذہین ہے، کیونکہ اس نے کروشیے کا مشکل سے مشکل کام یوں چٹکیوں میں سیکھ لیا تھا۔

دن گزرتے گیے۔ اس دوران میں مختار نے محسوس کیا کہ وہ شاردا کی محبت میں گرفتار ہوگیا ہے۔ یہ سب کچھ دھیرے دھیرے ہوا۔ جب مختار نے اس کو پہلی بار جھرنے میں سے دیکھا تھا تو اس وقت اس کے سامنے ایک نظارہ تھا بڑا فرحت ناک نظارہ۔ لیکن اب شاردا آہستہ آہستہ اس کے دل میں بیٹھ گئی تھی، مختار نے کئی دفعہ سوچا تھا کہ یہ محبت کا معاملہ بالکل غلط ہے، اس لیے کہ شاردا ہندو ہے۔ مسلمان کیسے ایک ہندو لڑکی سے محبت کرنے کی جرأت کرسکتا ہے۔ مختار نے اپنے آپ کو بہت سمجھایا لیکن وہ اپنے محبت کے جذبے کو مٹا نہ سکا۔شاردا اب اس سے باتیں کرنے لگی تھی مگر کھل کے نہیں۔ اس کے دماغ میں مختار کو دیکھتے ہی یہ احساس بیدار ہو جاتا تھا کہ وہ ننگی نہا رہی تھی اور مختار جھرنے میں سے اسے دیکھ رہا تھا۔

ایک روز گھر میں کوئی نہیں تھا۔ مختار کی ماں اور بہن دونوں کسی عزیز کے چالیسویں پر گئی ہوئی تھیں۔ شاردا حسب معمول اپنا تھیلا اٹھائے صبح دس بجے آئی۔ مختار صحن میں چارپائی پر لیٹا اخبار پڑھ رہا تھا۔ شاردا نے اس سے پوچھا، ’’بہن جی کہاں ہیں؟‘‘

مختار کے ہاتھ کانپنے لگے، ’’وہ۔۔۔ وہ کہیں باہر گئی ہیں۔‘‘

شاردا نے پوچھا، ’’ماتا جی؟‘‘

مختار اٹھ کر بیٹھ گیا، ’’وہ۔۔۔ وہ بھی اس کے ساتھ ہی گئی ہیں۔‘‘

’’اچھا!‘‘ یہ کہہ کر شاردا نے کسی قدر گھبرائی ہوئی نگاہوں سے مختار کو دیکھا اور نمستے کرکے چلنے لگی۔ مختار نے اس کو روکا، ’’ٹھہرو شاردا!‘‘

شاردا کو جیسے بجلی کے کرنٹ نے چھو لیا۔ چونک کر رک گئی، ’’جی؟‘‘

مختار چارپائی پر سے اٹھا، ’’بیٹھ جاؤ۔۔۔ وہ لوگ ابھی آجائیں گے۔‘‘

’’جی نہیں۔۔۔ میں جاتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر بھی شاردا کھڑی رہی۔

مختار نے بڑی جرات سے کام لیا۔ آگے بڑھا۔ اس کی ایک کلائی پکڑی اور کھینچ کر اس کے ہونٹوں کو چوم لیا۔ یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ مختار اور شادا دونوں کو ایک لخطے کے لیے بالکل پتا نہ چلا کہ کیا ہوا ہے۔۔۔ اس کے بعد دونوں لرزنے لگے۔ مختار نے صرف اتنا کہا، ’’مجھے معاف کردینا!‘‘

شاردا خاموش کھڑی رہی۔ اس کا تانبے جیسا رنگ سرخی مائل ہوگیا۔ ہونٹوں میں خفیف سی کپکپاہٹ تھی جیسے وہ چھیڑے جانے پر شکایت کررہے ہیں۔ مختار اپنی حرکت اور اس کے نتائج بھول گیا۔ اس نے ایک بار پھر شاردا کو اپنی طرف کھینچا اور سینے کے ساتھ بھینچ لیا۔۔۔ شاردا نے مزاحمت نہ کی۔ وہ صرف مجسمہ حیرت بنی ہوئی تھی۔ وہ ایک سوال بن گئی تھی۔۔۔ ایک ایسا سوال جو اپنے آپ سے کیا گیا ہو۔ وہ شاید خود سے پوچھ رہی تھی یہ کیا ہوا ہے۔ یہ کیا ہورہا ہے۔۔۔؟ کیا اسے ہونا چاہیے تھا۔۔۔ کیا ایسا کسی اور سے بھی ہوا ہے؟

مختار نے اسے چارپائی پر بٹھا لیا اور پوچھا، ’’تم بولتی کیوں نہیں ہو شاردا؟‘‘

شاردا کے دوپٹے کے پیچھے اس کا سینہ دھڑک رہا تھا۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ مختار کو اس کا یہ سکوت بہت پریشان کن محسوس ہوا، ’’بولو شاردا۔۔۔ اگر تمہیں میری یہ حرکت بری لگی ہے تو کہہ دو۔۔۔ خدا کی قسم میں معافی مانگ لوں گا۔۔۔ تمہاری طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھوں گا۔میں نے کبھی ایسی جرات نہ کی ہوتی، لیکن جانے مجھے کیا ہوگیا ہے۔۔۔ دراصل۔۔۔ دراصل مجھے تم سے محبت ہے۔‘‘

شاردا کے ہونٹ ہلے جیسے انھوں نے لفظ ’’محبت‘‘ ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ مختار نے بڑی گرم جوشی سے کہنا شروع کیا، ’’مجھے معلوم نہیں تم محبت کا مطلب سمجھتی ہو کہ نہیں۔۔۔ میں خود اس کے متعلق زیادہ واقفیت نہیں رکھتا، صرف اتنا جانتا ہوں کہ تمہیں چاہتا ہوں۔۔۔ تمہاری ساری ہستی کو اپنی اس مٹھی میں لے لینا چاہتا ہوں۔ اگر تم چاہو تو میں اپنی ساری زندگی تمہارے حوالے کردوں گا۔۔۔ شاردا تم بولتی کیوں نہیں ہو؟‘‘

شاردا کی آنکھیں خواب گیں ہوگئیں۔ مختار نے پھر بولنا شروع کردیا، ’’میں نے اس روز جھرنے میں سے تمہیں دیکھا۔۔۔ نہیں۔ تم مجھے خود دکھائی دیں۔۔۔ وہ ایک ایسا نظارہ تھا جو میں تا قیامت نہیں بھول سکتا۔۔۔ تم شرماتی کیوں ہو۔۔۔ میری نگاہوں نے تمہاری خوبصورتی چرائی تو نہیں۔۔۔ میری آنکھوں میں صرف اس نظارے کی تصویر ہے۔۔۔ تم اسے زندہ کردو تو میں تمہارے پاؤں چوم لوں گا۔‘‘ یہ کہہ کر مختار نے شاردا کا ایک پاؤں چوم لیا۔

وہ کانپ گئی۔ چارپائی پر سے ایک دم اٹھ کر اس نے لرزاں آواز میں کہا، ’’یہ آپ کیا کررہے ہیں۔۔۔؟ ہمارے دھرم میں۔۔۔‘‘

مختار خوشی سے اچھل پڑا، ’’دھرم ورم کو چھوڑو۔۔۔ پریم کے دھرم میں سب ٹھیک ہے۔‘‘ یہ کہہ کر اس نے شاردا کو چومنا چاہا مگر وہ تڑپ کر ایک طرف ہٹی اور بڑے شرمیلے انداز میں مسکراتی بھاگ گئی۔ مختار نے چاہا کہ وہ اڑ کر ممٹی پر پہنچ جائے۔ وہاں سے نیچے صحن میں کودے اور ناچنا شروع کردے۔

مختار کی والدہ اور بہن آگئیں تو شاردا آئی۔ مختار کو دیکھ کر اس نے فوراً نگاہیں نیچی کرلیں۔ مختار وہاں سے کھسک گیا کہ راز افشا نہ ہو۔دوسرے روز اوپر کوٹھے پر چڑھا۔ جھرنے میں سے جھانکا تو دیکھا کہ شاردا کھڑکی کے پاس کھڑی بالوں میں کنگھی کررہی ہے۔ مختار نے اس کو آواز دی، ’’شاردا!‘‘

شادرا چونکی۔ کنگھی اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر نیچے گلی میں جاگری۔ مختار ہنسا۔ شاردا کے ہونٹوں پر بھی مسکراہٹ پیدا ہوئی۔ مختار نے اس سے کہا، ’’کتنی ڈرپوک ہو تم۔۔۔ ہولے سے آواز دی اور تمہاری کنگھی چھوٹ گئی۔‘‘

شاردرا نے کہا، ’’اب لا کے دیجیے نئی کنگھی مجھے۔۔۔ یہ تو موری میں جاگری ہے۔‘‘

مختار نے جواب دیا، ’’ابھی لاؤں۔‘‘

شاردرا نے فوراً کہا، ’’نہیں نہیں۔۔۔ میں نے تو مذاق کیا ہے۔‘‘

’’میں نے بھی مذاق کیا تھا۔ تمہیں چھوڑ کر میں میں کنگھی لینے جاتا۔۔۔؟ کبھی نہیں!‘‘

شاردرا مسکرائی، ’’میں بال کیسے بناؤں۔‘‘

مختار نے جھرنے کے سوراخوں میں اپنی انگلیاں ڈالیں، ’’یہ میری انگلیاں لے لو!‘‘

شاردرا ہنسی۔۔۔ مختار کا جی چاہا کہ وہ اپنی ساری عمر اس ہنسی کی چھاؤں میں گزار دے، ’’شاردا، خدا کی قسم، تم ہنسی ہو، میرا رواں رواں شادماں ہوگیا ہے۔۔۔ تم کیوں اتنی پیاری ہو۔۔۔؟ کیا دنیا میں کوئی اور لڑکی بھی تم جتنی پیاری ہوگی۔۔۔ یہ کم بخت جھرنے۔۔۔ یہ مٹی کے ذلیل پردے۔ جی چاہتا ہے ان کو توڑ پھوڑ دوں۔‘‘

شاردا پھر ہنسی۔ مختار نے کہا، ’’یہ ہنسی کوئی اور نہ دیکھے، کوئی اور نہ سنے۔ شاردا صرف میرے سامنے ہنسنا۔۔۔ اور اگر کبھی ہنسنا ہو تومجھے بلا لیا کرو۔ میں اس کے اردگرد اپنے ہونٹوں کی دیواریں کھڑی کردوں گا۔‘‘

شاردا نے کہا، ’’آپ باتیں بڑی اچھی کرتے ہیں۔‘‘

’’تو مجھے انعام دو۔۔۔ محبت کی ایک ہلکی سی نگاہ ان جھرنوں سے میری طرف پھینک دو۔۔۔ میں اسے اپنی پلکوں سے اٹھا کر اپنی آنکھوں میں چھپا لوں گا۔‘‘ مختار نے شاردا کے عقب میں دور ایک سایہ سا دیکھا اور فوراً جھرنے سے ہٹ گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو کھڑکی خالی تھا۔ شاردا جا چکی تھی۔

آہستہ آہستہ مختار اور شاردا دونوں شیر و شکر ہو گئے۔ تنہائی کا موقعہ ملتا تو دیر تک پیار محبت کی باتیں کرتے رہتے۔۔۔ ایک دن روپ کور اور اس کا خاوند لالہ کالو مل کہیں باہر گئے ہوئے تھے۔ مختار گلی میں سے گزر رہا تھا کہ اس کو ایک کنکر لگا۔ اس نے اوپر دیکھا شاردا تھی۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے اسے بلایا۔مختار اس کے پاس پہنچ گیا۔ پورا تخلیہ تھا۔ خوب گھل مل کے باتیں ہوئیں۔ مختار نے اس سے کہا، ’’اس روز مجھ سے گستاخی ہوئی تھی اور میں نے معافی مانگ لی تھی۔ آج پھر گستاخی کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں، لیکن معافی نہیں مانگوں گا۔‘‘ اور اپنے ہونٹ شاردا کے کپکپاتے ہوئے ہونٹوں پررکھ دیے۔

شاردا نے شرمیلی شرارت سے کہا، ’’اب معافی مانگیے۔‘‘

’’جی نہیں۔۔۔ اب یہ ہونٹ آپ کے نہیں۔۔۔ میرے ہیں۔۔۔ کیا میں جھوٹ کہتا ہوں؟‘‘

شاردا نے نگاہیں نیچی کرکے کہا، ’’یہ ہونٹ کیا۔ میں ہی آپ کی ہوں۔‘‘

مختار ایک دم سنجیدہ ہوگیا، ’’دیکھو شاردا۔ ہم اس وقت ایک آتش فشاں پہاڑ پر کھڑے ہیں تم سوچ لو، سمجھ لو۔۔۔ میں تمہیں یقین دلاتا ہوں۔ خدا کی قسم کھا کر کہتاہوں کہ تمہارے سوا میری زندگی میں اور کوئی عورت نہیں آئے گی۔۔۔ میں قسم کھاتا ہوں کہ زندگی بھر میں تمہارا رہوں گا۔ میری محبت ثابت قدم رہے گی ۔۔۔ کیا تم بھی اس کا عہد کرتی ہو؟‘‘

شاردا نے اپنی نگاہیں اٹھا کر مختار کی طرف دیکھا، ’’میرا پریم سچا ہے۔‘‘

مختار نے اس کو سینے کے ساتھ بھینچ لیا اور کہا، ’’زندہ رہو۔۔۔ صرف میرے لیے، میری محبت کے لیے وقف رہو۔۔۔خدا کی قسم شاردا۔ اگر تمہارا التفات مجھے نہ ملتا تو میں یقیناً خود کشی کرلیتا۔۔۔ تم میری آغوش میں ہو۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ساری دنیا کی خوشیوں سے میری جھولی بھری ہوئی ہے۔ میں بہت خوش نصیب ہوں۔‘‘

شاردا نے اپنا سر مختار کے کندھے پر گرا دیا، ’’آپ باتیں کرنا جانتے ہیں۔۔۔ مجھ سے اپنے دل کی بات نہیں کہی جاتی۔‘‘

دیر تک دونوں ایک دوسرے میں مدغم رہے۔ جب مختار وہاں سے گیا تو اس کی روح ایک نئی اور سہانی لذت سے معمور تھی۔ ساری رات وہ سوچتا رہا۔ دوسرے دن کلکتے چلا گیا جہاں اس کا باپ کاروبار کرتا تھا۔ آٹھ دن کے بعد واپس آیا۔ شاردا حسبِ معمول کروشیے کا کام سیکھنے مقررہ وقت پر آئی۔ اس کی نگاہوں نے اس سے کئی باتیں کیں۔ کہاں غائب رہے اتنے دن۔۔۔؟ مجھ سے کچھ نہ کہا اور کلکتے چلے گئے۔۔۔؟ محبت کے بڑے دعوے کرتے تھے۔۔۔؟ میں نہیں بولوں گی تم سے۔۔۔ میری طرف کیا دیکھتے ہو، کیا کہنا چاہتے ہو مجھ سے؟

مختار بہت کچھ کہنا چاہتا تھا مگر تنہائی نہیں تھی۔ وہ کافی طویل گفتگو اس سے کرنا چاہتا تھا۔ دو دن گزر گئے، موقعہ نہ ملا۔ نگاہوں ہی نگاہوں میں گونگی باتیں ہوتی رہیں۔ آخر تیسرے روز شاردا نے اسے بلایا۔ مختار بہت خوش ہوا۔ روپ کور اور اس کا خاوند لالہ کالو مل گھر میں نہیں تھے۔

شاردا سیڑھیوں میں ملی۔ مختار نے وہیں اس کو اپنے سینے کے ساتھ لگانا چاہا، وہ تڑپ کر اوپر چلی گئی۔ ناراض تھی۔ مختار نے اس سے کہا، ’’دیکھو میری جان، میرے پاس بیٹھو، میں تم سے بہت ضروری باتیں کرنا چاہتا ہوں۔ ایسی باتیں جن کا ہماری زندگی سے بڑا گہرا تعلق ہے۔‘‘

شاردا اس کے پاس پلنگ پر بیٹھ گئی، ’’تم بات ٹالو نہیں۔۔۔ بتاؤ ،مجھے بتائے بغیر کلکتے کیوں گئے۔۔۔ سچ میں بہت روئی۔‘‘ مختار نے بڑھ کر اس کی آنکھیں چومیں، ’’اس روز میں جب سے گیا تو ساری رات سوچتا رہا۔۔۔ جو کچھ اس روز ہوا اس کے بعد یہ سوچ بچار لازمی تھی۔ ہماری حیثیت میاں بیوی کی تھی۔ میں نے غلطی کی۔ تم نے کچھ نہ سوچا۔ ہم نے ایک ہی جست میں کئی منزلیں طے کرلیں اور یہ غور ہی نہ کیا کہ ہمیں جانا کس طرف ہے۔۔۔ سمجھ رہی ہو نا شاردا۔‘‘

شاردا نے آنکھیں جھکالیں، ’’جی ہاں۔‘‘

’’میں کلکتے اس لیے گیا تھا کہ ابا جی سے مشورہ کروں۔ تمہیں سن کر خوشی ہوگی میں نے ان کو راضی کرلیا ہے،’’ مختار کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھیں۔ شاردا کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر اس نے کہا، ’’میرے دل کا سارا بوجھ ہلکا ہوگیا ہے۔۔۔ میں اب تم سے شادی کرسکتا ہوں۔‘‘

شاردا نے ہولے سے کہا، ’’شادی!‘‘

’’ہاں شادی۔‘‘

شاردا نے پوچھا، ’’کیسے ہو سکتی ہے ہماری شادی؟‘‘

مختار مسکرایا، ’’اس میں مشکل ہی کیا ہے۔۔۔ تم مسلمان ہو جانا۔‘‘

شاردا ایک دم چونکی، ’’مسلمان!‘‘

مختار نے بڑے اطمینان سے کہا، ’’ہاں ہاں۔۔۔ اس کے علاوہ اور ہوہی کیا سکتا ہے۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ تمہارے گھر والے بڑا ہنگامہ مچائیں گے لیکن میں نے اس کا انتظام کرلیا ہے۔ ہم دونوں یہاں سے غائب ہو جائیں گے، سیدھے کلکتے چلیں گے۔ باقی کام ابا جی کے سپرد ہے۔ جس روز وہاں پہنچیں گے اسی روز مولوی بلا کر تمہیں مسلمان بنا دیں گے۔ شادی بھی اسی وقت ہو جائے گی۔‘‘

شاردا کے ہونٹ جیسے کسی نے سی دیے۔ مختار نے اس کی طرف دیکھا، ’’خاموش کیوں ہوگئیں؟‘‘

شاردا نہ بولی۔ مختار کو بڑی الجھن ہوئی، ’’بتاؤ شاردا کیا بات ہے؟‘‘

شاردا نے بہ مشکل اتنا کہا، ’’تم ہندو ہو جاؤ۔‘‘

’’میں ہندو ہو جاؤں؟‘‘ مختار کے لہجے میں حیرت تھی۔ وہ ہنسا، ’’میں ہندو کیسے ہو سکتا ہوں؟‘‘

’’ میں کیسے مسلمان ہو سکتی ہوں؟‘‘شاردا کی آواز مدھم تھی۔

’’ تم کیوں مسلمان نہیں ہوسکتیں۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ۔۔۔ تم مجھ سے محبت کرتی ہو۔ اس کے علاوہ اسلام سب سے اچھا مذہب ہے۔۔۔ ہندو مذہب بھی کوئی مذہب ہے۔ گائے کا پیشاب پیتے ہیں، بت پوجتے ہیں۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ ٹھیک ہے اپنی جگہ یہ مذہب بھی۔ مگر اسلام کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔‘‘ مختار کے خیالات پریشان تھے، ’’ تم مسلمان ہو جاؤ گی تو بس۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ سب ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘

شاردا کے چہرے کا تانبے جیسا رنگ زرد پڑ گیا، ’’آپ ہندو نہیں ہوں گے؟‘‘

مختار ہنسا، ’’پاگل ہو تم؟‘‘

شاردا کا رنگ اور زرد پڑ گیا، ’’آپ جائیے۔۔۔ وہ لوگ آنے والے ہیں۔‘‘ یہ کہہ کر وہ پلنگ پر سے اٹھی۔

مختار متحیر ہوگیا، ’’لیکن شاردا۔۔۔‘‘

’’نہیں نہیں جائیے آپ۔۔۔ جلدی جائیے۔۔۔ وہ آجائیں گے۔‘‘ شاردا کے لہجے میں بے اعتنائی کی سردی تھی۔

مختار نے اپنے خشک حلق سے بہ مشکل یہ الفاظ نکالے،’’ ہم دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں، شاردا تم ناراض کیوں ہوگئیں؟‘‘

’’جاؤ۔۔۔ چلے جاؤ۔۔۔ ہمارا ہندو مذہب بہت برا ہے۔۔۔تم مسلمان بہت اچھے ہو۔‘‘

شاردا کے لہجے میں نفرت تھی۔ وہ دوسرے کمرے میں چلی گئی اور دروازہ بند کردیا۔ مختار اپنا اسلام سینے میں دبائے وہاں سے چلا گیا۔


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.