دوکان مے فروش پہ گر آئے محتسب
Appearance
دوکان مے فروش پہ گر آئے محتسب
دن عید کے تو خوب گھڑا جائے محتسب
اے چرخ فتنہ گر یہ روا ہے کہ ہر برس
صہبا کشوں پہ باج کی ٹھہرائے محتسب
مستوں نے سنگسار کیا اس کو بارہا
لیکن گیا نہ اس پہ بھی سودائے محتسب
ہاتھوں سے اس کے شیشۂ دل چور ہے مرا
یارب کیے کی اپنے سزا پائے محتسب
یہ کوئے مے فروش میں رولا ہوا کہ رات
دہشت سے واں ٹھہر نہ سکا پائے محتسب
مست شراب عشق کو بازار دہر میں
زنہار بیم شحنہ نہ پروائے محتسب
کچھ دے کے رشوت اس کو تو پی مصحفیؔ شراب
سب زر کے واسطے ہے یہ غوغائے محتسب
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |