دوپہر رات آ چکی حیلہ بہانہ ہو چکا
دوپہر رات آ چکی حیلہ بہانہ ہو چکا
اور مستی مل چکے گیسو میں شانہ ہو چکا
ناوک مژگاں کا اپنا دل نشانہ ہو چکا
مر چکے ہم موت آنے کا بہانہ ہو چکا
عہد پیری ہے جوانی کا زمانہ ہو چکا
ختم اب مضمون شعر عاشقانہ ہو چکا
اب خزاں ہے موسم گل کا زمانہ ہو چکا
ہو چکی گلبانگ بلبل کا ترانہ ہو چکا
شیر سے شیریں کو رغبت تھی انہیں ہے ذوق مے
دور بھی اب اور ہے اگلا زمانہ ہو چکا
ساقیا پیری میں تو شغل صبوحی ہے ضرور
اب بھی پچھلا دور ہے اگلا زمانہ ہو چکا
شبنمی پر اوس پڑتی ہے جو اپنی زیست میں
تو پس مردن لحد پر شامیانہ ہو چکا
ہم تو گرد کارواں تھے سب سے پیچھے رہ گئے
قافلہ ریگ رواں کا بھی روانہ ہو چکا
آسماں پر طعن بخل اہل زمیں کو ہے عبث
پانی پانی ہو گیا جب دانہ دانہ ہو چکا
چٹ چکے قید قفس سے اب اسیران چمن
بعد ویرانے کے آباد آشیانہ ہو چکا
آمد فصل بہاری کی خبر لائی نسیم
باغ میں بلبل کا تیار آشیانہ ہو چکا
کیا خزاں میں آب و رنگ باغ فواروں سے ہو
سب زر گل لٹ چکا خالی خزانہ ہو چکا
وائے نادانی کہ اب فکر سبک دوشی ہوئی
دفتر عصیاں جب اپنا بار شانہ ہو چکا
گل اٹھا زنجیر سے پریوں کا دیوانہ ہے یہ
عشق میں بدنام میں خانہ بہ خانہ ہو چکا
گور تک وہ ساتھ میت کے رہے حد ہو گئی
دشمن جاں سے بھی حق دوستانہ ہو چکا
ہم فقیروں کے بھی گھر لائی تھی ان کو سادگی
اب وہ للہ ہے بتوں کا کارخانہ ہو چکا
خواب غفلت مہرؔ کب تک جاگیے اٹھ بیٹھیے
صبح ہونے آئی شب گزری فسانہ ہو چکا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |