دوری میں کیوں کہ ہو نہ تمنا حضور کی
دوری میں کیوں کہ ہو نہ تمنا حضور کی
منزل کو میری قرب سے نسبت ہے دور کی
فرقت نے اس کی وصل کی تشویش دور کی
تسکیں نہیں ہے یوں بھی دل ناصبور کی
موسیٰ کے سر پہ پاؤں ہے اہل نگاہ کا
اس کی گلی میں خاک اڑی کوہ طور کی
کہتا ہے انجمن کو تری خلد مدعی
اس بوالہوس کے دل میں تمنا ہے حور کی
واعظ نے میکدے کو جو دیکھا تو جل گیا
پھیلا گیا چراند شراب طہور کی
موسیٰ کو کیوں نہ موج تجلی دھکیل دے
جلوے سے اس کے گل ہوئی مشعل شعور کی
ارباب وقت جانتے ہیں روزگار نے
کی سہو سے وفا تو تلافی ضرور کی
رسوائیوں کا حوصلہ گھٹ گھٹ کے بڑھ گیا
ساماں ہے خامشی مری شور نشور کی
میل آسماں کا سوئے زمیں بے سبب نہیں
زیر قدم جگہ ہے سر پر غرور کی
اس سے نہ ملیے جس سے ملے دل تمام عمر
سوجھی ہمیں بھی ہجر میں آخر کو دور کی
پامال کر رہا ہے سیہ روزیوں کا جوش
مٹی خراب ہے مرے کلبے میں نور کی
کیا ایک قرب غیر کا صدمہ نہ پوچھیے
ہیں دل کے آس پاس بلا دور دور کی
مضموں مرے اڑائے قلقؔ سب نے اس قدر
سنتا ہوں میں ترانہ زبانی طیور کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |