Jump to content

دن کو بحر و بر کا سینہ چیر کر رکھ دیجئے

From Wikisource
دن کو بحر و بر کا سینہ چیر کر رکھ دیجئے
by سراج الدین ظفر
330898دن کو بحر و بر کا سینہ چیر کر رکھ دیجئےسراج الدین ظفر

دن کو بحر و بر کا سینہ چیر کر رکھ دیجئے
رات کو پھر پائے گل رویاں پہ سر رکھ دیجئے

دیکھیے پھر کیا دمکتے ہیں گل اندامان شہر
اک ذرا ان میں محبت کا شرر رکھ دیجئے

آہوان شب گریزاں ہوں تو ان کی راہ میں
دام دل رکھ دیجئے دام نظر رکھ دیجئے

بت پرستی کیجیے اس شدت احساس سے
سنگ میں بھی جزو احساس و خبر رکھ دیجئے

زہد اگر جنگ آزما ہو کھینچیے شمشیر شوق
حسن اگر مد مقابل ہو سپر رکھ دیجئے

راحت جان ظفرؔ ہیں شاہدان بے ہنر
روندنے کو ان کے قدموں میں ہنر رکھ دیجئے


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.