دنیائے حسن و عشق میں کس کا ظہور تھا
Appearance
دنیائے حسن و عشق میں کس کا ظہور تھا
ہر آنکھ برق پاش تھی ہر ذرہ طور تھا
میری نظر کی آڑ میں ان کا ظہور تھا
اللہ ان کے نور کا پردہ بھی نور تھا
تھی ہر تڑپ سکون کی دنیا لیے ہوئے
پہلو میں آپ تھے کہ دل ناصبور تھا
ہم کشتگان غم پہ یہ الزام زندگی
بے مہر کچھ تو پاس حقیقت ضرور تھا
بالیں پہ تم جب آئے تو آئی وہ موت بھی
جس موت کے لیے مجھے جینا ضرور تھا
تھی ان کے روبرو بھی وہی شان اضطراب
دل کو بھی اپنی وضع پہ کتنا غرور تھا
لطف حیات بے خلش مدعا کہاں
یعنی بقدر تلخئ صہبا سرور تھا
اٹھ کر چلے تو حشر بھی اٹھنا تھا کیا ضرور
ان کی گلی سے مدفن فانیؔ تو دور تھا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |