دم اخیر بھی ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا
Appearance
دم اخیر بھی ہم نے زباں سے کچھ نہ کہا
جہاں سے اٹھ گئے اہل جہاں سے کچھ نہ کہا
چلی جو کشتئ عمر رواں تو چلنے دی
رکی تو کشتئ عمر رواں سے کچھ نہ کہا
خطائے عشق کی اتنی سزا ہی کافی تھی
بدل کے رہ گئے تیور زباں سے کچھ نہ کہا
بلا سے خاک ہوا جل کے آشیاں اپنا
تڑپ کے رہ گئے برق تپاں سے کچھ نہ کہا
گلہ کیا نہ کبھی ان سے بے وفائی کا
زباں تھی لاکھ دہن میں زباں سے کچھ نہ کہا
خوشی سے رنج سہے نازؔ عمر بھر ہم نے
خدا گواہ کبھی آسماں سے کچھ نہ کہا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |