دل ہے غذائے رنج جگر ہے غذائے رنج
دل ہے غذائے رنج جگر ہے غذائے رنج
پیدا کیا ہے ہم کو خدا نے برائے رنج
حاصل کسی سے کچھ نہیں ہوتا سوائے رنج
دنیا میں لائی ہے ہمیں قسمت برائے رنج
آدم سے باغ خلد چھٹا ہم سے کوئے یار
وہ ابتدائے رنج ہے یہ انتہائے رنج
ممکن نہیں ہے آئے جو بوئے گل نشاط
ایسے دماغ جاں میں بھری ہے ہوائے رنج
جھڑکی دے گالیاں دے ستم گر ذلیل کر
کافر ہو اے صنم جو ذرا دل میں لائے رنج
ہم نخل آہ سے چمن روزگار میں
باندھا کئے ہوا پئے نشو و نمائے رنج
اے صانع ازل مری مٹی خراب کی
کیا چاہئے تھی خانۂ دل میں بنائے رنج
سب دوست اپنی حال میں ہیں آپ مبتلا
کس سے کہوں میں کون سنے ماجرائے رنج
ہم بار عشق کے متحمل نہ ہو سکے
بس دل پکڑ کے بیٹھ گئے وہ اٹھائے رنج
ہیں سکہ ہائے داغ ہزاروں بھرے ہوئے
قصر دل فقیر ہے دولت سرائے رنج
بھولی نہیں نصیب کے لکھے کی خوبیاں
تحریر لوح دل پہ ہے سب ماجرائے رنج
ممکن نہیں مزاج رہے ایک حال پر
گہہ آشنائے عیش ہیں گہہ آشنائے رنج
اچھے یہ قہقہے نہیں عاشق کے حال پر
دیکھو ہنسی ہنسی میں کہیں ہو نہ جائے رنج
ہوتے ہیں کس لباس میں اشعار دردناک
بہر عروس فکر ہے زیبا ردائے رنج
کیا غم جو کوئے یار میں ہوتا ہوں پائمال
فرط خوشی سے خاک نہیں دل میں جائے رنج
کہتے ہیں میرے دوست مرا حال دیکھ کر
دشمن کو بھی خدا نہ کرے مبتلائے رنج
سودائے عشق میں یہ سعادت حصول ہے
بخت سیہ ہے سایۂ بال ہمائے رنج
اندھیر صدمۂ شب فرقت ہے اے صباؔ
آندھی چراغ جاں کے لئے ہے ہوائے رنج
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |