دل کے نگر میں چار طرف جب غم کی دہائی بیٹھ گئی
Appearance
دل کے نگر میں چار طرف جب غم کی دہائی بیٹھ گئی
سر پہ ہمارے دست قضا سے تیغ جدائی بیٹھ گئی
ہم ہیں فقیر اللہ کے یارو پھر اس کا ہے پریکھا کیا
گر ہم پاس بھی آ کر کوئی بہنی مائی بیٹھ گئی
سن کے ادائے غم کی تیرے صبر و شکیب ہیں بھاگنے پر
پاؤں ٹھہرنے مشکل ہیں جب دھاک پرائی بیٹھ گئی
اے دل اس بانکیت سے ہرگز شغل نہ کر تو لکڑی کا
ہاتھ قلم ہے پھر تیرا گر ایک بھی گھائی بیٹھ گئی
تیغ جفا لی میان سے اپنے جب اس جان کے دشمن نے
سر کو جھکا کر اپنے اپنے، ساری خدائی بیٹھ گئی
مصحفیؔ کیا پوچھے ہے دوانے حال صفائے دل کا مرے
تھا تو یہ آئینہ روشن پر اب کائی بیٹھ گئی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |