دل کی کہوں یا کہوں جگر کی
Appearance
دل کی کہوں یا کہوں جگر کی
کچھ بات کروں ادھر ادھر کی
لو دل کی بجھائیں یا جگر کی
لیں اشک خبر کدھر کدھر کی
اٹھنے نہ دیا ہمیں مرے پر
لی ضعف نے عاقبت پسر کی
گھڑیال نصیب ہوں شب وصل
سر چوٹ ہے ہر گھڑی گجر کی
ڈھلنے کو ہے مہر نوجوانی
چھٹنے پہ ہے توپ دوپہر کی
کیا کم سخنوں کو شمع کہیے
شمعوں کی زباں ہے ہاتھ بھر کی
مرقد میں چلے رہ عدم لی
سوجھی جو مسافرت میں گھر کی
کاکل ہوئی تر عرق سے رخ کے
پی سانپ نے اس پھول پر کی
جی قبر میں خاک بھلے اے شادؔ
بستی ہے اجاڑ اس نگر کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |