دل کو سمجھاؤ ذرا عشق میں کیا رکھا ہے
Appearance
دل کو سمجھاؤ ذرا عشق میں کیا رکھا ہے
کس لیے آپ کو دیوانہ بنا رکھا ہے
یہ تو معلوم ہے بیمار میں کیا رکھا ہے
تیرے ملنے کی تمنا نے جلا رکھا ہے
کون سا بادہ کش ایسا ہے کہ جس کی خاطر
جام پہلے ہی سے ساقی نے اٹھا رکھا ہے
اپنے ہی حال میں رہنے دے مجھے اے ہم دم
تیری باتوں نے مرا دھیان بٹا رکھا ہے
آتش عشق سے اللہ بچائے سب کو
اسی شعلے نے زمانے کو جلا رکھا ہے
میں نے زلفوں کو چھوا ہو تو ڈسیں ناگ مجھے
بے خطا آپ نے الزام لگا رکھا ہے
کیسے بھولے ہوئے ہیں گبر و مسلماں دونوں
دیر میں بت ہے نہ کعبے میں خدا رکھا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |