دل کا کھوج نہ پایا ہرگز دیکھا کھول جو قبروں کو
Appearance
دل کا کھوج نہ پایا ہرگز دیکھا کھول جو قبروں کو
جیتے جی ڈھونڈے سو پاوے خبر کرو بے خبروں کو
توشک بالا پوش رضائی ہے بھولے مجنوں برسوں تک
جب دکھلاوے زلف سجن کی بن میں آوتے ابروں کو
کافر نفس ہر ایک کا ترسا زر کوں پایا بختوں سیں
آتش کی پوجا میں گزری عمر تمام ان گبروں کو
مرد جو عاجز ہو تن من سیں کہے خوش آمد باور کر
محتاجی کا خاصا ہے روباہ کرے ہے ببروں کو
وعدا چوک پھر آیا ناجیؔ درس کی خاطر پھڑکے مت
چھوٹ گلے تیرے اے ظالم صبر کہاں بے صبروں کو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |