Jump to content

دل پکارا پھنس کے کوئے یار میں

From Wikisource
دل پکارا پھنس کے کوئے یار میں (1914)
by پروین ام مشتاق
308343دل پکارا پھنس کے کوئے یار میں1914پروین ام مشتاق

دل پکارا پھنس کے کوئے یار میں
روک رکھا ہے مجھے گل زار میں

فرق کیا مقتل میں اور گل زار میں
ڈھال میں ہیں پھول پھل تلوار میں

لطف دنیا میں نہیں تکرار میں
لیکن ان کے بوسۂ رخسار میں

تھا جو شب کو سایۂ رخسار میں
تازگی کتنی ہے باسی ہار میں

فرط مایوسی نے مردہ حسرتیں
دفن کر دی ہیں دل بیمار میں

شاد ہو جاتی ہے دنیا اے روپے
کیا کرامت ہے تری جھنکار میں

آتش الفت کی دھڑکن بڑھ گئی
گر پڑا دل شعلۂ رخسار میں

آہ کے قبضہ میں ہے تاثیر یا
تیغ ہے دست علمبردار میں

نشتر مژگاں کی تیزی کے سبب
ایک کانٹا ہے دل پر خار میں

آب پیکاں پاس ہے لیکن نصیب
پھر بھی خشکی ہے لب سوفار میں

خیر ہو پرویںؔ دل مضطر مرا
لے چلا پھر کوچۂ دل دار میں


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%AF%D9%84_%D9%BE%DA%A9%D8%A7%D8%B1%D8%A7_%D9%BE%DA%BE%D9%86%D8%B3_%DA%A9%DB%92_%DA%A9%D9%88%D8%A6%DB%92_%DB%8C%D8%A7%D8%B1_%D9%85%DB%8C%DA%BA