Jump to content

دل میں ہر چند ہے خیال اس کا

From Wikisource
دل میں ہر چند ہے خیال اس کا
by جوشش عظیم آبادی
303098دل میں ہر چند ہے خیال اس کاجوشش عظیم آبادی

دل میں ہر چند ہے خیال اس کا
نظر آتا نہیں جمال اس کا

وہ جو تھی بے خودی سو ہے موجود
ہجر سے کم نہیں وصال اس کا

ہو چکا ہے جگر پسند مژہ
دل کو مانگے ہے خط و خال اس کا

شیخ اگر سامنے ہو مستوں کے
نظر آ جائے سب کمال اس کا

ہم پڑے اک زوال میں ؔجوشش
دیکھ کر حسن بے زوال اس کا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.