دل میں پوشیدہ تپ عشق بتاں رکھتے ہیں
Appearance
دل میں پوشیدہ تپ عشق بتاں رکھتے ہیں
آگ ہم سنگ کی مانند نہاں رکھتے ہیں
تازگی ہے سخن کہنہ میں یہ بعد وفات
لوگ اکثر مرے جینے کا گماں رکھتے ہیں
بھا گئی کون سی وہ بات بتوں کی ورنہ
نہ کمر رکھتے ہیں کافر نہ دہاں رکھتے ہیں
مثل پروانہ نہیں کچھ زر و مال اپنے پاس
ہم فقط تم پہ فدا کرنے کو جاں رکھتے ہیں
محفل یار میں کچھ بات نہ نکلی منہ سے
کہنے کو شمع کی مانند زباں رکھتے ہیں
ہو گیا زرد پڑی جس کی حسینوں پہ نظر
یہ عجب گل ہیں کہ تاثیر خزاں رکھتے ہیں
عوض ملک جہاں ملک سخن ہے ناسخؔ
گو نہیں حکم رواں طبع رواں رکھتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |