Jump to content

دل میں تیر عشق ہے اور فرق پر شمشیر عشق

From Wikisource
دل میں تیر عشق ہے اور فرق پر شمشیر عشق (1914)
by پروین ام مشتاق
308328دل میں تیر عشق ہے اور فرق پر شمشیر عشق1914پروین ام مشتاق

دل میں تیر عشق ہے اور فرق پر شمشیر عشق
کیا بتائیں پڑ گئی ہے پاؤں میں زنجیر عشق

دیکھنے والے یہ کہتے ہیں کتاب دہر میں
تو سراپا حسن کا نقشہ ہے میں تصویر عشق

کوہ کن اور قیس مل جائیں تو میں ان سے کہوں
لے گئے کیا ساتھ ہی قبروں میں تم تاثیر عشق

واہ رے انصاف اتنا بھی نہ واں پوچھا گیا
یہ قصور حسن ہے یا اصل میں تاثیر عشق

بات کرنے سے بھی نفرت ہو گئی دل دار کو
واہ رے اظہار الفت واہ رے تاثیر عشق

کیا سبب کیا وجہ کیوں آ کر نکل جائے شکار
کیوں نشانہ پر نہ جائے گا ہمارا تیر عشق

پہلے اپنا سر قلم کروائے پھر تیار ہو
ہر کسی کا کام ہے جو لکھ سکے تفسیر عشق

دولت دیدار حسب مدعا حاصل ہوئی
مل گئی جس شخص کو تقدیر سے اکسیر عشق

حسن جاناں کی کشش دنیا میں باقی رہ گئی
بد نصیبی سے ہماری اڑ گئی تاثیر عشق

تو بھی گل کے آئینہ پر کھینچ دے تصویر حسن
میں بھی بلبل کو سناؤں باغ میں تقریر عشق

کیا شکایت اس کی پرویںؔ یہ تو ہوتی آئی ہے
پہلے الفت کی تھی عزت اور نہ اب توقیر عشق


Public domain
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.

PD-US //wikisource.org/wiki/%D8%AF%D9%84_%D9%85%DB%8C%DA%BA_%D8%AA%DB%8C%D8%B1_%D8%B9%D8%B4%D9%82_%DB%81%DB%92_%D8%A7%D9%88%D8%B1_%D9%81%D8%B1%D9%82_%D9%BE%D8%B1_%D8%B4%D9%85%D8%B4%DB%8C%D8%B1_%D8%B9%D8%B4%D9%82