دل محبت مکان ہے گویا
Appearance
دل محبت مکان ہے گویا
آرزو کا جہان ہے گویا
خاک میں مل چکے ہم اور اس کو
آج تک بھی گمان ہے گویا
میرے آزار دینے کو وہ شوخ
دوسرا آسمان ہے گویا
کھول دے منہ خموں کے پیر مغاں
آج ہی امتحان ہے گویا
پاؤں آگے نہ اٹھ سکے واں سے
اس گلی کا نشان ہے گویا
تیری تصویر کیوں نہ بول اٹھے
اس میں عاشق کی جان ہے گویا
تیرا چپ چپ یہ بیٹھنا سالکؔ
اک طرح کا بیان ہے گویا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |