دل سے پوچھو کیا ہوا تھا اور کیوں خاموش تھا
دل سے پوچھو کیا ہوا تھا اور کیوں خاموش تھا
آنکھ محو دید تھی اتنا مجھے بس ہوش تھا
وہ بھی کیا تاثیر تھی جس نے ہلائے سب کے دل
کیا بتاؤں وہ مرا ہی نالۂ پر جوش تھا
محفل ساقی میں تھا کچھ اور ہی مستوں کا رنگ
کوئی ساغر ڈھونڈھتا تھا اور کوئی بے ہوش تھا
کیا عجب ہے جائزہ لے مے پرستوں کا کوئی
یاد رکھنا ساقیا مجھ سا بھی اک مے نوش تھا
کیا سمجھ سکتا تھا کوئی تیرے دیوانے کی چپ
جب کسی نے اس سے کچھ پوچھا تو بس خاموش تھا
بے خودی سے نشۂ جام خودی اترا تو پھر
ایک ہی ساغر ملا ایسا کہ میں مدہوش تھا
اک ہمیں کو ساقیا پوچھا نہ تو نے دور میں
ورنہ مے خانہ میں تیرے شور نوشا نوش تھا
کس قدر تھا اشتیاق منزل مقصود اسے
مرنے والے کا جنازہ آج دوشا دوش تھا
زندگی بھر کے گناہوں سے یہ تھی شرم اے اجل
تارک ہستی یہاں سے جب چلا روپوش تھا
غنچے کیوں خاموش آئے گلشن ہستی میں شوقؔ
موسم گل سے مگر خوف خزاں ہم دوش تھا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |