دل سے سمجھوں گا اسے دشمن جاں ہونے دو
دل سے سمجھوں گا اسے دشمن جاں ہونے دو
زہر گھولوں گا دوا میں خفقاں ہونے دو
آنکھ بھوں اس کے اشاروں پہ رواں ہونے دو
مل کے ابرو و مژہ تیر و کماں ہونے دو
میرے دل کو ہدف تیر نگہ کرتے ہیں
اور مجھ سے بھی اشارہ ہے کہ ہاں ہونے دو
آگ بھڑکی ہوئی ہے مجھ کو نہ سمجھائے کوئی
جان کا مال کا ہوتا ہے زیاں ہونے دو
ہر طرح ہم دل نا فہم کو سمجھا لیں گے
داغ موجود ہیں پہلو کو خزاں ہونے دو
اسم اعظم کا اثر غیر کو دکھلا دیں گے
یار کا نام ذرا ورد زباں ہونے دو
آنکھیں پھوٹیں بھی کہیں اس فلک بد بیں کی
ضبط اچھا نہیں آہوں کا دھواں ہونے دو
پردہ ڈالو مری آنکھوں پہ نہ اے شرم و حجاب
یار بے پردہ ہے مجھ کو نگراں ہونے دو
رات باقی ہے ابھی کس لیے گھبرا کے اٹھے
توپ چھٹنے دو مری جان اذاں ہونے دو
لکھنؤ میں تمہیں دکھلائیں گے چوکا بہتے
چار آنسو مری آنکھوں سے رواں ہونے دو
دیکھوں کیوں کر نہیں ہوتا فلک کج سیدھا
دل محزوں کی بلند آہ و فغاں ہونے دو
اہل دنیا میں مؤثر ہے ہر ایک شے کا رواج
مست ہو جائیں گے سب دور مغاں ہونے دو
نوجوانی کا مزا کوئی خرابات میں ہے
مردم پیر کو مشتاق جناں ہونے دو
آزمائش کے نظر ہی جو ہمارے جانب
پار سینے سے نگاہوں کی سناں ہونے دو
بحرؔ نے اب تو کمر باندھی ہی بد وضعی پر
اب نہ روکو اسے رسوائے جہاں ہونے دو
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |