دل سینے میں بیتاب ہے دل دار کدھر ہے
Appearance
دل سینے میں بیتاب ہے دل دار کدھر ہے
کوئی مجھ کو بتا دو وہ مرا یار کدھر ہے
ہم کب کے چمن زار میں بے ہوش پڑے ہیں
معلوم نہیں گل کدھر اور خار کدھر ہے
اس گل کا پتا گر نہیں دیتے ہو تو یارو
اتنا تو بتا دو در گل زار کدھر ہے
دل چھیننے والے کوئی گھر بیٹھ رہیں ہیں
پوچھیں ہیں یہی رستۂ بازار کدھر ہے
دیکھا مجھے کل اس نے تو غیروں سے یہ بولا
لاؤ بھی شتابی مری تلوار کدھر ہے
یاں ہو رہا ہے سینہ مرا آگو ہی چھلنی
ڈھونڈے ہے کہاں تیر کو سوفار کدھر ہے
احوال نپٹ تنگ ہے بیمار کا تیرے
اس وقت تو اے آئینہ رخسار کدھر ہے
شیریں سخناں سب ہی شکر بیچیں ہیں لیکن
انصاف کرو جوش خریدار کدھر ہے
برسوں نہ ملے اس سے تو اس شوخ نے ہم کو
پوچھا نہ کبھی مصحفیٔؔ زار کدھر ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |