دل جو زیر غبار اکثر تھا
دل جو زیر غبار اکثر تھا
کچھ مزاج ان دنوں مکدر تھا
اس پہ تکیہ کیا تو تھا لیکن
رات دن ہم تھے اور بستر تھا
سرسری تم جہاں سے گزرے
ورنہ ہر جا جہان دیگر تھا
دل کی کچھ قدر کرتے رہیو تم
یہ ہمارا بھی ناز پرور تھا
بعد یک عمر جو ہوا معلوم
دل اس آئینہ رو کا پتھر تھا
بارے سجدہ ادا کیا تہ تیغ
کب سے یہ بوجھ میرے سر پر تھا
کیوں نہ ابر سیہ سفید ہوا
جب تلک عہد دیدۂ تر تھا
اب خرابہ ہوا جہان آباد
ورنہ ہر اک قدم پہ یاں گھر تھا
بے زری کا نہ کر گلا غافل
رہ تسلی کہ یوں مقدر تھا
اتنے منعم جہان میں گزرے
وقت رحلت کے کس کنے زر تھا
صاحب جاہ و شوکت و اقبال
اک ازاں جملہ اب سکندر تھا
تھی یہ سب کائنات زیر نگیں
ساتھ مور و ملخ سا لشکر تھا
لعل و یاقوت ہم زر و گوہر
چاہیے جس قدر میسر تھا
آخر کار جب جہاں سے گیا
ہاتھ خالی کفن سے باہر تھا
عیب طول کلام مت کریو
کیا کروں میں سخن سے خوگر تھا
خوش رہا جب تلک رہا جیتا
میرؔ معلوم ہے قلندر تھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |