Jump to content

دل تنگ ہو مدینے سے جب اٹھ چلا حسین

From Wikisource
دل تنگ ہو مدینے سے جب اٹھ چلا حسین
by میر تقی میر
313548دل تنگ ہو مدینے سے جب اٹھ چلا حسینمیر تقی میر

دل تنگ ہو مدینے سے جب اٹھ چلا حسین
ناموس اپنے ساتھ لیے سب اٹھا حسین
لوگوں نے یہ کہا بھی کہ یاں سے نہ جا حسین
لیکن گیا حسین سو جی سے گیا حسین

رکھتے ہی پاؤں رہ میں بلا سے ہوا دوچار
فتنے کا ہر چہار طرف سے اٹھا غبار
ہر گام گرچہ آتے تھے درپیش غم ہزار
لیکن نہ دیکھتا تھا تنک سر اٹھا حسین

طے کرکے مرحلوں کو گیا کوفے کے قریب
پیماں سے اپنے پھر گئے وے سارے بے نصیب
بدعہدی ان کی دیکھ کے آگے چلا غریب
تھا ساتھ اک ثبات کے پر وہ نہ تھا حسین

ناچار ہو کے کوچ کیا اس مقام سے
کاوش کی طرح پڑتی چلی اہل شام سے
سر کھینچتی تھی تازہ بلا گام گام سے
تاآنکہ رفتہ رفتہ گیا کربلا حسین

واں پہنچتے ہی اور زمانے کا رنگ تھا
اک جمع روسیاہ مہیاے جنگ تھا
ہر طعن تھا سنان و ہر اک حرف سنگ تھا
کنبے سمیت اپنے وہیں گھر گیا حسین

تھی چشم خیر جن سے نظر آئے ان کے بیر
گل پھول سارے سوکھ گئے پانی کے بغیر
دو روز اپنے باغ میں کی ان نے خوب سیر
کیا کیا نہ رنگ دیکھ کے یاں سے گیا حسین

احوال بیکسی کے ہو نظارگی موئے
انصار کھینچ پیاس کی لاچارگی موئے
پیادے سوار جتنے تھے یک بارگی موئے
مرگ ان سبھوں کی دیکھتا تھا چپ کھڑا حسین

بیٹا جوان ایک نظر سے چلا گیا
اک گودی میں جو تھا سو وہ چھاتی جلا گیا
قاسم کہ دی تھی بیٹی جسے وہ جدا گیا
اوقات تنگ ہوگئی تنہا رہا حسین

کیا کیا ستم نہ قلب المناک پر سہے
دریا لہو کے آنکھوں کے آگے سے ہو بہے
تا نقش یہ زمانے میں مدت تئیں رہے
میداں میں صاف ہو کے کھڑا مر مٹا حسین

سیلاب اس کے خون سے اس خاک پر بہا
انصاف کر کنھوں نے نہ افسوس ہی کہا
وارث نہ کوئی عابد بیمار بن رہا
سو وہ ضعیف و مضطرب و لب پہ وا حسین

نیزے پہ سر پدر کا مقابل نظر کے تھا
آشوب لوٹ مار کا اطراف گھر کے تھا
منھ غم کا دل کی اور کہ جانب جگر کے تھا
کہتا تھا میرے حق میں یہ کیا کر گیا حسین

پڑتی نہیں ہے چہرۂ پرنور پر نگاہ
عالم تمام آنکھ میں میری ہوا سیاہ
چھاتی کے اپنے داغ دکھاؤں کسے کہ آہ
روپوش جا کے مجھ سے کہاں تو ہوا حسین

میں ناتوان و ساتھ مرے ایک کارواں
تس پر کہیں ہیں راہ چلا چل دواں دواں
میں درد دل کو جا کے الٰہی کہوں کہاں
ہوتا تو کان رکھ کے یہ سنتا بتھا حسین

جیدھر نگاہ جاتی ہے دشمن ہی ہیں کھڑے
اعوان دوست جتنے تھے سب ہیں موئے پڑے
پھر ہم اسیر ہیں سو بہم جیسے ہیں لڑے
ہر ایک چلنے پائے مصیبت سے کیا حسین

جاتا ہے قافلہ جو کہیں کو تو جمع ہو
نے ایک ہے کہیں تو کہیں مر رہے ہیں دو
ہمراہیوں کا حال کہوں کیا ہے گومگو
جاتا ہے تجھ رئیس کا سر یوں جدا حسین

نے بھائی نے بھتیجے نہ بیٹے نہ اپنے لوگ
مارے گئے تمام غم ان کے ہیں جی کے روگ
پرسے کو کون پوچھے گا جو لیجیے بھی سوگ
کنبہ تو تیرے آگے ہی سب ہوچکا حسین

اے اس شکستہ حال کے خستہ جگر پدر
کیا کہہ کے تجھ کو روئیے خوں ہوگئے جگر
بیکس تو ہوکے مرتے ہیں سب پر نہ اس قدر
مردے پہ تیرے منع ہے کرنا بکا حسین

نازل جنھوں کی شان میں تھی آیۂ حجاب
سر ان کے ہیں برہنہ منھوں پر نہیں نقاب
پردہ کریں سو کاہے کا جنگل میں ہیں خراب
چھوڑی نہیں ہے ایک کے سر پر ردا حسین

کیا جانتے تھے ہم کہ یہ ایسا ستائیں گے
گھر بار کو علی کے کھڑے ہو لٹائیں گے
سبط نبی کے سر کے تئیں یوں کٹائیں گے
اسلامیوں سے ہم کو گماں یہ نہ تھا حسین

بیگانہ وار تو اے شہ کم سپہ گیا
چلتے ہوئے کسو سے نہ اک حرف کہہ گیا
ناچار تیرے منھ کو ہر اک دیکھ رہ گیا
صد رنگ تجھ سے رکھتے ہیں ہم سب گلہ حسین

خیمے جلے اسیر ہوئے گھر لٹا گیا
چھوٹا جو ایک مرنے کے تیں سو بندھا گیا
بے آبی میں جہاز یہ ڈوبا بہا گیا
تیرے گئے نہ کوئی رہا آشنا حسین

بیٹھے جو ہیں سو بال کھلے پیٹتے ہیں سر
ناموس کو جگہ جو ملی ہے سو رہگذر
پتھر کے لاؤں جاکے کہاں سے دل و جگر
جو ایسے ظلم دیکھوں کھڑا برملا حسین

جنگل میں سربرہنہ بہت خوار ہم ہوئے
زنجیر طوق جیسے گنہگار ہم ہوئے
پھر اور ظلم کے جو سزاوار ہم ہوئے
مرنا ترا تھا ہم پہ یہ تھوڑی جفا حسین

ہوتی ہیں وہ جفائیں جو کرتے نہیں ہیں گبر
ہر آن ہم اسیروں پہ ہے قہر اور جبر
چارہ نہیں رہا ہے ہمیں غیر شکر و صبر
بد حال تونے چاہا ہے یوں تو بھلا حسین

انصاف کر کہ غم کے ہوں تاچند پائمال
شرمندگی ہے زندگی یہ جان ہے وبال
مرنا خدا سے چاہتے ہیں ہم خراب حال
پر کیا کریں قبول نہ ہو جو دعا حسین

باہر تھا یہ سلوک تو تیرا قیاس سے
پھر ان سے جو کہ جیتے ہوں تیری ہی آس سے
اک بار تو تو ایسا گیا اٹھ کے پاس سے
ہوتا ہے جیسے کوئی کسو سے خفا حسین

درپیش اپنے آئی ہے اب طرفہ راہ ایک
ہر ہر قدم جگر سے نکلتی ہے آہ ایک
ہرگز ادھر کو کرتے نہیں وے نگاہ ایک
جن مردماں سے رکھتے تھے چشم وفا حسین

اس درد دیں کو دیکھ جگر ہوگئے گداز
سبط نبی پہ دست ستم کر چکے دراز
افسوس ہے نہ باندھ کے صف وے پڑھیں نماز
لوہو میں اپنے سجدہ کرے تو ادا حسین

خوں ہوگئی دلوں میں ہوس تیری چاہ کی
کہتے تھے گرد کحل کریں تجھ سپاہ کی
تن پر ترے سو دیکھی منوں خاک راہ کی
کانوں سنا نہ ہم نے تجھے بادشا حسین

مجھ بن رہا نہیں ہے کوئی وارثوں میں مرد
سو میں کروں ہوں دم بدم اک دل سے آہ سرد
بیمار و زار ایک تو میں تھا ہی پھر یہ درد
عارض ہوا ہے میرے تئیں لا دوا حسین

اس طور چاہتا ہے کوئی جینے کو کہیں
وارث نہیں شفیق نہیں لطف کچھ نہیں
ہر اک کو آرزو ہے کہ مر جایئے یہیں
لیکن نہیں پہنچتی ہماری قضا حسین

جیسی تھی زندگی میں ہمیں تجھ سے بندگی
غالب کہ تابہ حشر عقیدہ رہے یہی
صورت ہو کوئی جاتی نہیں اپنی پیروی
اب سر ترا ہمارا ہوا پیشوا حسین

لے سب اسیر شام کی جانب کو ہیں رواں
ناچار ان کے ساتھ ہوں میں زار و ناتواں
کر جاؤں تیری فکر سو فرصت مجھے کہاں
حافظ نگاہبان ہے تیرا خدا حسین

اشجار تیرے باغ کے یک بارگی کٹے
گل اور بوٹے جور کے آروں سے سب چھٹے
آہیں کریں کہاں تئیں سینے تو سب پھٹے
کچھ اور ہوگئی ہے یکایک ہوا حسین

مردہ کہیں پڑا ہے کہیں سر کہیں ہے پا
ہر گام پر ہے ایک جواں جان سے گیا
القصہ پاؤں رکھنے کو ملتی نہیں ہے جا
جنگل تمام مرنے سے تیرے بسا حسین

بنتا نہیں غرض یہ کہ تجھ کو اٹھا کے جائیں
افسوس تجھ سے شخص سے منھ کو چھپا کے جائیں
تدبیر کیا کریں کہ کھڑے ہو گڑا کے جائیں
سنتا نہیں ہے کوئی ہمارا کہا حسین

جانے میں جی سے تیرے بہت آئے ہم بتنگ
عائد ہوئے ہزاروں طرح کے ادھر کو ننگ
کچھ زندگی کا ڈھنگ بھی ہے مت کرے درنگ
پاس اپنے ٹک ہمیں بھی شتابی بلا حسین

بندی ہوئے چلے ہیں کسو اور بے نصیب
سجاد دست بستہ بھی ہمراہ ہے غریب
وقت وداع پہنچا ہے آکر بہت قریب
دے تجھ کو خواب مرگ سے کوئی جگا حسین

دو حرف تیرے منھ کے بھی تا سن کے جایئے
دل کو نہیں قرار تسلی تو پایئے
کیا جانیے کہ اب یہاں پھر کیونکے آیئے
بیدرد روزگار تو ہم سے پھرا حسین

آگے گیا یہ کہہ کے اسیروں کا قافلہ
باتوں کا لاعلاج یہیں چھوڑ سلسلہ
بس میرؔ تو بھی چپ ہو ہوا دل تو آبلہ
مر رہ زباں دراز کہیں کہہ کے یاحسین


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.