دل بہلنے کا جہاں میں کوئی ساماں نہ ہوا
دل بہلنے کا جہاں میں کوئی ساماں نہ ہوا
اپنا ہمدرد کبھی عالم امکاں نہ ہوا
شکوۂ ہجر نہ بھولے سے بھی آیا لب پر
روبرو ان کے میں خود کردہ پشیماں نہ ہوا
ہم نشیں پوچھ نہ حال دل ناکام ازل
یہی حسرت رہی پورا کوئی ارماں نہ ہوا
بے خودی میں یہ ہے عالم ترے دیوانوں کا
فصل گل آئی مگر چاک گریباں نہ ہوا
کوئی کیا جانے کہ کیا لطف خلش ہے حاصل
میرا ہی دل ہے کہ منت کش درماں نہ ہوا
یوں تو ہمدرد زمانہ تھا بظاہر لیکن
کسی صورت سے علاج غم پنہاں نہ ہوا
بے دھڑک جانے کی ہمت نہ ہوئی محشر میں
منہ چھپانے کے لیے دست بہ داماں نہ ہوا
دل بہلتا بھی تو کس طرح بہلتا شب غم
ساز و ساماں نہ ہوا نغمۂ حرماں نہ ہوا
پرسش حال پہ آنکھوں میں بھر آئے آنسو
ایسے مجبور ہوئے ضبط بھی آساں نہ ہوا
ذرہ ذرہ سے عیاں حسن کی رعنائی ہے
وہ حسیں تو ہے کہ پردوں میں بھی پنہاں نہ ہوا
میں تھا مشتاق ترے جلوے کا اے مایۂ حسن
رہ کے پردہ میں بھی تو شعلۂ عریاں نہ ہوا
چین سے قید تعین میں بسر کی اے شوقؔ
دل بھی جمعیت خاطر سے پریشاں نہ ہوا
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |