Jump to content

دلی کا اجڑا ہوا لال قلعہ

From Wikisource

دیباچہ


ہے عجب لذت شکار افگن تیرے تیروں کے بیچ

جس کا چرچا ہو رہا ہے سارے نخچیروں کے بیچ

سید عرب نام ایک بزرگ زادہ جو امام جعفر صادق علیہ السلام کی اولاد میں سے مدینہ طیبہ کے رہنے والے تھے، شاہجہاں بادشاہ ہند کے نذر کے لیے نجد اور یمن اور حجاز کے قوم دار گھوڑے لے کر دہلی پہونچے، شاہجہاں کو سید صاحب کے گھوڑے بہت پسند آئے اور میر عرب صاحب کو بہت تعظیم اور ادب کے ساتھ دلی میں ٹھہرا لیا اور سیادت اور شرافت کے لحاظ سے انھیں طرخانی منصب سے سرفراز فرمایا۔ جب حضور میں آئیں تو سوائے سلام اور مصافحہ کے اور کسی قسم کی تکلیف اور تکلف نہ کریں، درباری لباس پہنیں یا نہ پہنیں، اس کی ان سے کوئی باز پرس نہیں اور میر عرب ان کے نام کے ساتھ خان کا خطاب اضافہ فرمایا۔

سید عرب خان کو گھوڑوں کی شناخت اور ان کے معالجات میں کامل دخل تھا۔ چنانچہ جب تک دلی کی سلطنت اور شاہجہاں کی اولاد مٹی ہے، میر عرب خان کی ذرّیات لال قلعہ میں عزت اور اعزاز کے ساتھ رہی۔ ان کی نسل میں سے اکبر ثانی ابوظفر بہادر شاہ کے عہد میں میر سنگی نام مرزا شاہ رخ کے مصاحب تھے اور میر سنگی صاحب کی اصل نسل اور سیادت کی وجہ سے وہ حضرت علی کا نشان متبرک جو امیر تیمور صاحبقران کے عہد سے لال قلعہ میں چلا آتا تھا، اکبر ثانی نے میر سنگی صاحب کے سپرد کر دیا تھا۔ معین الدین اکبر ثانی یا سراج الدین ابوظفر بادشاہ جب عید بقرعید کو دوگانہ پڑھنے جاتے تھے تو میر سنگی صاحب اس نشان مقدس کو گھوڑے پر لے کر بادشاہ کی سواری کے آگے آگے چلتے تھے۔ ہر پنج شنبہ کو لوبان، عطر اور سات روپیہ آٹھ آنہ میر سنگی صاحب کو بادشاہی خزانے سے ملتے تھے تاکہ صاحب ذوالفقار حیدر کرّار نشان بردار احمد مختار کی فاتحہ کریں۔ میر سنگی کے دو صاحب زادے ہوئے، بڑے میر ظریف صاحب قبلہ اور دوسرے میر عرب صاحب قبلہ۔ ان دونوں صاحب زادوں نے بھی بہادر شاہ اور ان کے دربار بہت بے تکلفی کے ساتھ دیکھے اور غدر 57 ؁ء سے پہلے دونوں بھائی دن رات قلعہ میں رہتے سہتے اور بادشاہ زادوں اور سلاطین سے صحبت گرم رکھتے تھے۔ میر ظریف صاحب اور میر عرب صاحب اگرچہ امیر نہ تھے مگر دلّی میں ان دونوں بھائیوں کی صورت اور سیرت مشہور تھی۔

مجھ فقیر ناصر نذیر فراق دہلوی کی شادی میر ظریف صاحب کی چھوٹی صاحبزادی سیدہ عباسی بیگم صاحبہ سے ہوئی اور فقیر خانہ میں خدا رکھے جو اولاد ہوئی وہ انہی بی بی کے بطن سے ہوئی اور برخوردار سید ناصر خلیق میر ظریف صاحب کے نواسے ہیں۔ شادی کے بعد جب مجھے میر ظریف صاحب اپنے خسر کے باتیں سننے کا موقع ملا تو مجھے معلوم ہوا میر صاحب قبلہ لال قلعہ کی زندہ تاریخ ہیں اور پھر گفتار میں وہ شیرینی اور وہ لوچ تھا کہ سبحان اللہ اور صل علی اور خصوصاً جب میرے والد بزرگوار اور حضرت میر ظریف صاحب سمدھی سمدھی یکجا ہوجاتے تھے اور دونوں صاحبوں کی باتیں ہوتی تھیں تو فصاحت اور بلاغت کے دریا موجزن ہوتے تھے اور شاہجہاں کا تخت طاؤسی اور دیوان خاص کی آراستگی آنکھوں کے سامنے آ جاتی تھی۔ بعض راتیں مجھے اور میر ظریف صاحب کو باتیں کرتے کرتے گزر جاتی تھیں اور میر صاحب مرحوم بھی اس ناکارہ فراق کے پڑھنے لکھنے اور نظم و نثر کے توغّل سے بہت خوش تھے۔ میر ظریف صاحب قبلہ میں ان کا خاندانی جوہر موجود تھا یعنی گھوڑوں کے ایسے مبصّر اور معالج تھے کہ دلی کے دیسی شوقینوں کا ذکر نہیں، یوروپین جنٹلمین جو گھوڑوں کے جوہری ہوتے ہیں اپنے گھوڑے میر صاحب کے پاس بھیج دیا کرتے تھے اور میں دس بیس گھوڑے ہر صبح میر صاحب کے دروازے پر کھڑے دیکھتا تھا اور یہ سنتا تھا کہ صاحب نے سلام کہا ہے اور فرمایا ہے یہ گھوڑا ہم مول لیں گے آپ اس کے عیب تو بتا دیجیے یا اس گھوڑے کو کیا بیماری ہے۔

میر صاحب اگرچہ ذی علم تھے مگر فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں پڑھنے لکھنے سے سروکار نہیں بلکہ ہمیں گھوڑوں کے معالجات اور ان کی شناخت پر فخر ہے کیونکہ ہمارے مورث اعلی میر عرب خاں مدینہ شریف سےاس ہنر کی وجہ سے ہندوستان میں آئے تھے۔

اس تمہید کا مدعا یہ ہے کہ میر ظریف صاحب نے لال قلعہ کی بہٹتی پیٹھ کی اچھی طرح سیر کی اور ان کے والد ماجد میر سنگی صاحب جو مرزا بابر اور مرزا شاہرخ کی رفاقت اور مصاحبت میں رہے۔ اس واسطے آپ کو لال قلعہ کے پچھلے دو بادشاہوں اور ان کی اولاد اور بیگموں کے حالات بہت یاد تھے اور میں 1892؁ء تک میر صاحب کے کلام دل پذیر برابر سنتا رہا تو میری خاندانی معلومات میں میر صاحب کے ارشادات گویا سونے میں سہاگہ اور موتیوں میں دھاگہ ہوگئے اور ان میں سے فقیر فراق پہلے مرزا شاہرخ بن ابوظفر بادشاہ کے شکار کے حالات گلدستہ بنا کر ناظرین کی میز پر سجاتا ہے۔ مگر ان میں سے مضمون نمبر ایک اور نمبر دو میں نے علی مرزا صاحب کی زبان مبارک سے سن کر لکھے ہیں۔ علی مرزا صاحب ایک درویش مزاج دلی کے پرانے آدمی اور میاں رنگین صاحب مرحوم دہلوی کے نواسے کنواسے ہیں اور میاں رنگین صاحب دہلوی کو زمانہ جانتا ہے کیونکہ ریختی دلی میں انھوں نے ہی ایجاد کی ہے۔ اور میاں رنگین صاحب سید انشاءاللہ خاں دہلوی کے گہرے یار ہیں جن کا حال میرے استاد نے تذکرہ آب حیات میں خوب رنگینی سے لکھا ہے۔


فراق دہلوی


مرزا شاہرخ سیر و شکار کے لیے دہلی سے کجلی بن تشریف لے جاتے ہیں


مرزا شاہرخ حضرت ابوظفر بہادر کے اولو العزم فرزند دل بند تھے۔ مولوی امام بخش صہبائی کو ان کی اتالیقی کی خدمت سپرد تھی۔ مرزا شاہرخ میں اپنے بھائیوں اور لال قلعہ کے اور بادشاہ زادوں کے خلاف ایک قسم کی بیداری اور ہشیاری تھی۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ہم نے امیر تیمور کے نام کو بٹہ لگایا اور ہماری کاہلی اور بے علمی نے ہمیں یہ دن دکھایا ہے مگر سورما چنا بھاڑ کو نہیں پھوڑ سکتا۔ وہ کس کس کے جی میں جی ڈالتے اور کسے کسے سمجھاتے اور سوتے سے جگاتے۔ وہ اپنی ہمت مردانہ کو سیر و شکار میں صرف کرتے تھے اور اپنا دل بہلاتے تھے۔


(1)

ان کی قدردانی اور حوصلہ افزائی کو دیکھ کر دور دور سے ہنرمند اور اہل حاجت ان کے حضور میں حاضر ہوتے تھے اور ان سے جو کچھ بن پڑتا تھا ان کے ساتھ سلوک کرتے تھے۔ ایک دن ایک شخص ان کے درِ دولت پر حاضر ہوا اور عرض بیگی سے کہا “صاحب عالم بہادر کو خبر دو ایک سیاح آپ کے لیے عنقا پکڑ کر لایا ہے”۔ صاحب عالم نے عرض بیگی کو اشارہ کیا کہ اس سیاح کو حاضر کرو اور وہ شخص صاحب عالم کے روبرو لایا گیا۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا پنجرا تھا جس پر ایک ریشمی بسنتی بندھی ہوئی تھی ۔ اس نے آداب کیا اور بسنتی اتاری تو معلوم ہوا چاندی کے تاروں کا ایک چھوٹا سا پنجرا ہے اور اس میں ایک پدڑی ہلدی میں زرد رنگی ہوئی بند ہے۔

مرزا شاہرخ : (اس چڑیا کو دیکھ کر ) واہ واہ سبحان اللہ! نایاب چیز ہے۔ یہ عنقا تمھیں کہاں سے ملا؟

وہی لانے والا : حضور میں اسے کوہ قاف سے لایا ہوں۔

مرزا شاہرخ : تم ٹھیک کہتے ہو۔ یہ تمھارا ہی کام تھا جو اتنی دور گئے اور اسے پکڑ کر لائے ۔ یہ فرما کر صاحب عالم اٹھے اور اپنے دست مبارک میں وہ پنجرا لیا اور محل سرا میں تشریف لے گئے۔ آپ کی دادی شاہ عالم بادشاہ کی والدہ ماجدہ زندہ تھیں، وہ پنجرا ان کے سامنے لے جا کر رکھ دیا اور کہا: دادی حضرت دیکھیے! ہمارے لیے ایک شخص مصیبت پیٹ کر عنقا لایا ہے۔ بیگم نے پنجرا اٹھا کر چڑیا کو غور سے دیکھا اور مسکرا کر فرمایا: نوج یہ عنقا نہیں ہے ، یہ تو موئی دو کوڑی کی پدڑی ہے۔ نگوڑی کو ہلدی میں رنگ لیا ہے ۔ جھوٹے پر خدا کی پھٹکار ۔ ہائے دلی کے شہدے تم بادشاہ زادوں کو کیا کیا جُل دیتے ہیں اور کیسے کیسے سبز باغ دکھاتے ہیں اور اماں تم ایسے مومنا چومنا ہو کہ جو کسی نے کہہ دیا وہ تمھارے لیے آیت حدیث ہوگیا۔ کیا وہ عنقا لانے والا ابھی حاضر ہے یا دفان ہوا؟

صاحب عالم : وہ حاضر ہے ۔

بیگم: اچھا تم باہر جا کر اس کی کان پکڑی کراؤ اور اس سے کہو کہ تم سلاطین کی آنکھوں میں جوتوں سمیت گھسنا چاہتے ہو اور ایسا جھوٹ بولتے ہو جو دہرا جائے نہ اٹھایا جائے۔

صاحب عالم: دادی حضرت! میں نے دیکھتے ہی جان لیا تھا کہ یہ پدڑی ہے مگر وہ بیچارہ تو کسی آس پر ہی اسے عنقا بنا کر لایا ہے۔ خدا جانے اس کے بال بچے کَے دن کے بھوکے پیاسے ہوں گے جو اس نے یہ جال بچھایا ہے۔

بیگم: تو اسے کچھ انعام دینا چاہتے ہو؟

صاحب عالم: بے شک وہ انعام کا ضرور مستحق ہے۔ وہ کیا جانے گا کہ میں صاحب عالم کے پاس عنقا لے کر گیا تھا۔

بیگم: تمھاری خوشی۔ دردانہ (لونڈی کا نام ہے) میرا صندوقچہ تو لے آ۔

دردانہ: جناب عالی! لونڈی ابھی صندوقچہ لائی۔

یہ کہہ کر دردانہ ایک کوٹھری میں گئی اور وہاں سے ایک صندوقچہ اٹھا کر لائی۔ بیگم صاحبہ کی پٹاری میں کنجیوں کا ایک گچھا پڑا ہوا تھا، اسے انھوں نے اٹھا کر ایک کنجی سے صندوقچہ کا قفل کھولا۔ لونڈی نے صندوقچہ کا ڈھکنا اٹھایا۔ صاحب عالم نے دیکھا صندوقچہ میں کوئی خانہ نہیں گویا ایک حوض ہے جس میں منہ تک اشرفیاں بھر رہی ہیں۔

بیگم: لو شاہرخ! رومال میں اشرفیاں لے لو۔ یہ کہہ کر بیگم صاحب نے بھر بھر مٹھیاں مرزا شاہرخ کے رومال میں ڈالنی شروع کیں، یہاں تک کہ رومال اشرفیوں سے بھر گیا۔ مرزا شاہرخ رومال سنبھالتے ہوئے باہر تشریف لانے لگے تو بیگم صاحب نے فرمایا: یہ عنقا بھی انھیں کے حوالے کرو جو لائے ہیں۔ یہاں ہم لوگوں سے اس کی رکھیا ہرگز نہ ہوگی۔

دادی جان کے فرمانے سے صاحب عالم نے دوسرے ہاتھ میں عنقا کا پنجرا بھی لے لیا۔ رومال اور پنجرا دونوں سیاح صاحب کو دے دیے اور فرمایا: یہ انعام ہے اور یہ تمھاری چڑیا ہے۔ ہمارے نوکروں کو اس کا رکھ رکھاؤ نہ آئے گا، تم اسے اپنے ہی پاس رکھو۔ جب ہمارا دیکھنے کو جی چاہا کرے گا تو تمھارے ہاں سے منگا لیا کریں گے۔ عنقا والے عنقا کا پنجرا اور اشرفیاں لے کر بھاگے تو گھر آ کر آرام لیا اور اشرفیاں گنیں تو پوری آٹھ سو نکلیں؛ دلدّر پار ہوگئے۔

(٢)

حضرت ابوظفر بہادر شاہ: ولے بھی میر سنگی سنتے ہو۔

میر سنگی صاحب : کرامات پیر غلام بگوش ہوش سنتا ہے۔

حضرت ابوظفر بہادر شاہ : مرزا شاہرخ نہیں مانتا ہے، وہ شیر کا شکار کھیلنے کجلی بن جاتا ہے۔ ویسے تو اس کے ساتھ ایک چھوٹا سا لشکر ہے مگر اماں مجھے کسی پر بھروسا نہیں ہے، مگر تم پر اعتبار کرتا ہوں اور اس لیے اس کے ساتھ تمھیں بھیجتا ہوں ۔ تم شاہرخ کے ساتھ اس طرح رہنا جس طرح قافیہ کے ساتھ ردیف رہتی ہے، دم بھر کو اسے اکیلا نہ چھوڑنا۔ وہ من چلا آدمی ہے، ایسا نہ ہو کسی جنگلی ہاتھی یا شیر سے بھڑجائے اور اپنی جان گنوا دے۔

میر سنگی صاحب : جہاں پناہ حافظ و ناصر خدا ہے، اس ناچیز کی کیا حقیقت ہے۔ مگر یہ جان نثار ایک آن کو بھی صاحب عالم سے الگ نہ ہوگا اور جب تک یہ نمک خوار زندہ رہے گا، ان کے دشمنوں پر آنچ نہیں آنے دے گا۔

الغرض مرزا شاہرخ بہادر نے مع اپنے رفیقوں کے دلی سے کوچ کیا اور دریائے جمنا پر جو ناؤں کا پل بندھا ہوا تھا اس پر سے گزر کر پہلی منزل غازی آباد پر کی اور اسی طرح منزل بہ منزل اور کوچ در کوچ سہارنپور اور روڑکی ہوتے ہوئے کلیر شریف پہونچے اور حضرت مخدوم علاؤالدین صابر کلیری قدس سرہ العزیز کے مزار پُر انوار پر فاتحہ پڑھتے ہوئے ہردوار اور کنکھل جابراجے اور ان مقامات کو دیکھ بھال کر گنگا کو عبور کر کے کجلی بن کی طرف مڑے۔ گنگا کے کنارے چلتے چلتے ایک روز شام کو ایک گاؤں کے پاس پہونچ کر خیمہ زن ہوئے، آفتاب غروب ہو رہا تھا اور اس کی زرد زرد کرنیں گنگا میں پڑ رہی تھیں اور مشرق کی طرف شفق اپنی بہار دکھا رہی تھی۔ صاحب عالم اپنی بارگاہ کے آگے شامیانے کے نیچے کرسی پر بیٹھے بہنڈہ نوش فرما رہے تھے ۔ جو گاؤں کے مرد اور عورتیں اور بچہ اور بوڑھے اور جوان یہ کہتے ہوئے دوڑے آئے کہ چلو رے دلی کے بادشاہ زادے کے درشن کر لیں۔ صاحب عالم کو جب ان گاؤں والوں کا یہ شوق اور یہ چاؤ معلوم ہوا تو آپ نے ایک خواص سے اشارہ کیا کہ ان لوگوں سے کہہ دو ہم نے تمھارے گاؤں کے پرلے کنارے پر گنگا کے اندر چھوٹی بڑی بٹیاں پڑی دیکھی ہیں۔ وہ ہمیں بہت پسند آئی ہیں ۔ تم میں سے جو لوگ خوبصورت اور سڈول اور چکنی بٹیاں اٹھا کر لائے گا تو جو بٹیا ہمیں پسند آئے گی اس کا مول پانچ روپیہ اور بٹیا ناپسند ہوگی تو اس کے دو روپے دیے جائیں گے۔ اس وقت تم سب جاؤ اور کل صبح بٹیاں چن کر چھانٹ کر لاؤ ۔ گاؤں والے خوش ہوتے ہوئے اپنے گاؤں کو چلے گئے اور دوسرے دن ایک چھکڑا بھر کر بٹیاں لے آئے ۔ صاحب عالم نے حکم دیا کہ ہمارے مصاحب ان بٹیوں کو ملاحظہ کریں جو بٹیہ انھیں پسند آئے اس کے بدلے انھیں پانچ روپیہ اور جو ناپسند ہو اس کے بدلے دو روپیہ ان لوگوں کو دیں۔ اور یہ قصہ شام تک ختم ہوا، رات کے وقت جب صاحب عالم خاصہ نوش فرمانے لگے تو ایک مصاحب نے دست بستہ عرض کی کہ حضور نے آج ایک خزانہ ان گنواروں کو ناحق دے دیا۔ صاحب عالم نے ایک آہ کھینچ کر کہا ہمارے پاس خزانہ کہاں سے آیا جو کسی کو دے دیں گے۔ تم نے سنا نہیں وہ بیچارے یہ کہتے ہوئے آئے تھے کہ ہم دلی کے بادشاہ زادے کے درشن کرنے آئے ہیں۔ بادشاہ زادے کو بھی کچھ غیرت کرنی چاہیے تھی یا نہیں؟ وہ خالی خولی جاتے تو کیا جانتے کہ دلی کا بادشاہ زادہ ہے۔


(3)

مرزا شاہرخ چلتے چلتے کجلی بن کے قریب پہونچ گئے اور انھوں نے دیکھا کہ زمین کا رنگ اور اس کی مٹی ہمارے ملک کی زمین اور مٹی سے الگ ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ اس سرزمین پر کبھی انسانوں کا گزر ہی نہیں ہوا ہے۔ میدان ہیں تو ویران ہیں، جھاڑیاں ہیں تو سنسان۔ جابجا ندیاں ہیں اور نالے ہیں مگر نہ کسی ندی کا گھاٹ ہے نہ اتار ہے۔ کشتی اور ناؤ کہاں سے آئی، کوئی بستی کوئی گاؤں دور دور تک نہیں ہے۔

میرسنگی صاحب نے صاحب عالم کو مشورہ دیا کہ اجنبی جگہ ہے آج دوپہر دن سے کسی جگہ ڈیرا کیا جائے اور چار سوار چار طرف بھیجے جائیں، اگر کوئی بستی پائیں تو اپنے ساتھ دو ایک آدمی اس بستی کے لائیں اور ان لوگوں سے کجلی بن کا ٹھیک رستہ معلوم کرکے آگے بڑھا جائے اور یہ بھی پوچھنا چاہیے کہ کجلی بن کے اندر کوئی جا سکتا ہے یا نہیں اور شیر ہاتھی اس میں کہاں کہاں رہتے ہیں۔ ان کا شکار کس طرح کیا جائے گا۔ صاحب عالم نے میر سنگی صاحب کی رائے کو پسند فرمایا اور چار سوار چار طرف دوڑائے گئے اور چار پانچ کوس آگے بڑھ کر ایک ندی کے کنارے ڈیرا کیا گیا۔ مغرب سے کچھ پہلے تین طرف سے تین سوار ناکام پلٹ کر آئے اور انھوں نے کہا ہمیں کوئی بستی کوئی گاؤں اور کوئی آدمی نہیں ملا اور نہ ہم نے کسی سے رستہ پایا۔ ہم درختوں اور جھاڑیوں میں پھنس پھنس کر نکلے ہیں اندازاً بیس بیس میل تک کوئی آبادی نہیں ہے۔ مگر چوتھا سوار پورب کی طرف سے جو آیا تو اپنے ساتھ دو آدمیوں کو لایا۔ صاحب عالم کے حضور میں دونوں آدمی اور وہ سوار پیش کیا گیا۔ دونوں آدمی لنگوٹی باندھے ہوئے تھے، ان کی صورت پر وحشت برستی تھی۔ ان سے بات کی تو وہ عجب طرح کی بھاشا بولتے تھے اور وہ بہت کم سمجھ میں آتی تھی۔ اور جو کچھ ان کی باتیں سمجھ میں آئیں وہ یہ ہیں۔

انھوں نے کہا اس جگہ سے دس کوس پر ہمارا گاؤں ہے۔ ہم کھیتی برائے نام کرتے ہیں، اس جنگل کی جڑی بوٹیاں اور ترکاریوں سے اور شکار کے گوشت سے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔ یہاں سے ہمارے گاؤں تک کجلی بن میں گھسنے کا کوئی راستہ نہیں ہے کیونکہ چھوٹے بڑے درخت ایسے پاس پاس ہیں اور ان کے ٹہنے نیچے نیچے سینکڑوں ہزاروں برس کی عمر کے ایسے بچھے ہوئے ہیں کہ آدمی یا گھوڑا یا بکری تو بکری گیدڑ اور خرگوش اور مور بھی اندر نہیں جا سکتا نہ اندر سے باہر آ سکتا ہے۔ ہمارے گاؤں سے پچاس کوس پر ایک گاؤں اور بستا ہے، وہ بڑا گاؤں ہے اس کے پاس ہی ایک کجلی بن کا دروازہ ہے۔ دروازے سے یہ مراد ہے کہ وہاں جا کر بَن کچھ چھدرا چھدرا ہوگیا ہے۔ اس گاؤں کا نام پلا ہے اور پلا میں ایک راجپوت رہتا ہے۔ وہ شیر کا شکار کھیلتا ہے اور کجلی بن کے اندر جایا کرتا ہے۔ آپ یہاں سے پلا جائیے اور اس راجپوت کو بلائیے اور اسے ساتھ لے کر کجلی بن جائیے اور شیر کا شکار کیجیے۔ مگر حضور آپ رات کو یہاں نہ ٹھہریں کیونکہ یہاں رات بجتی ہے۔صاحب عالم نے فرمایا رات کیونکر بجا کرتی ہے۔ گنواروں نے رات کا بجنا سمجھایا بھی مگر ان کی بولی ایسی اکھڑ تھی کہ رات بجنے کا مطلب کوئی نہ سمجھ سکا ۔ ان سے کہا گیا تم رات کو اردوئے معلی میں رہو ۔ صبح ہم بھی تمھارے ساتھ گاؤں کو چلیں گے اور وہاں سے پلا کو جائیں گے ۔ مگر وہ کسی طرح نہ ٹھہرے اور یہی کہتے رہے ہم یہاں ہرگز نہ ٹھہریں گے یہاں تو رات بجتی ہے اور سر پر پاؤں رکھ کر بھاگے۔

میر سنگی صاحب نے جمعدار کو بلا کر سمجھا دیا کہ آج رات کو معمول سے زیادہ پہرا رہے، گنوار کہہ گئے ہیں کہ رات بجتی ہے اس سے زیادہ ان کا کہنا سمجھ میں نہیں آیا۔ مگر وہ جو پتہ توڑ کر بھاگے ہیں اس سے خیال ہوتا ہے کہ رات کو یہاں کوئی جوکھوں ضرور ہے۔ جمعدار نے کہا، حضور! جہاں ڈر ہے وہاں سپاہی کا گھر ہے۔ پہرا بھی دوہرا کیے دیتا ہوں اور رات بھر خود بھی کمر باندھے کھڑا رہوں گا۔ مجھے دیکھنا ہے کہ رات مردار کیونکر بجتی ہے، صاحب عالم کے اقبال سے ہم تو اپنے آگے فلک کی ہستی نہیں سمجھتے۔ البتہ کجلی بن کا پاس ہے، شیر لگتے ہوں گے یا ہاتھی ستاتے ہوں گے تو ہماری تلوار کے آگے وہ کیا ٹھہریں گے ۔ غرض جمعدار یہ کہہ کر سپاہیوں کو وردی پہنانے چلا، اس میں آفتاب غروب ہو گیا اور آس پاس کے درختوں پر ایسے پرند اور چڑیوں نے بسیرا لیا جو اس سے پہلے مرزا شاہرخ اور ان کے ساتھیوں نے نہ دیکھے تھے، ان کی آوازیں بھی کانوں کو الگ معلوم ہوتی تھیں۔ تھوڑی دیر میں چاروں طرف اندھیرا چھا گیا ۔ رات عشا کی نماز پڑھ کر چھپر کھٹ میں جا کر لیٹ گئے۔ پاچپی کرنے والا پاچپی کرنے لگا ۔ داستان کہنے والے نے داستان شروع کر دی اور گھڑیالی نے رات کے دس بجائے جو یکایک ان کے کان میں جھانجھ بجنے کی آواز آئی جو بہت سریلی اور دل کش تھی۔ اس اجاڑ جنگل میں جھانجھ کی آواز بڑھی اور دم بدم بڑھنے لگی اور صاحب عالم چھپر کھٹ پر اٹھ کر بیٹھ گئے اور فرمایا میر سنگی صاحب ہم سمجھے ان گنواروں نے جو کہا تھا کہ رات بجتی ہے ۔ وہ اسی آواز سے مراد تھی۔ میر سنگی صاحب اور سب مصاحبوں نے کہا حضور نے بجا فرمایا، رات بجنے کا ان کا اسی آواز سے مدعا تھا اور ایک گھنٹے میں تو یہ معلوم ہونے لگا کہ جنگل ہزاروں اور لاکھوں جھانجھوں سے بھرا ہوا ہے اور ان کے شور سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ صاحب عالم گھبرا کر خیمے سے نکل کر باہر آ گئے ہیں اور حیرت میں مبتلا ہیں۔ رات کے بارہ بجے تو یہ آواز اس قدر بڑھی کہ صور قیامت کی تصدیق ہو گئی۔ آواز کی رفتار اس طرح تھی کہ ایک بار معلوم ہوتا تھا کہ جھانجھ آسمان پر سے بجتے چلے آتے ہیں اور آتے آتے سر پر آئے اور پھر کانوں کے اندر گھس گئے۔ پھر کانوں سے نکلے، سر پر پہونچے اور سر پر سے اونچے ہوکر آسمان کو اڑ گئے۔ جب وہ صدا اوپر جاتی تھی تو کچھ دھیمی معلوم ہوتی تھی اور جب نیچے آتی تھی تو کان کے پردوں کو پھاڑتی معلوم ہوتی تھی۔ اب کوئی آدمی ایک دوسرے کی بات بالکل نہ سن سکتا تھا۔ صاحب عالم میر سنگی صاحب کے کان میں بات کہتے تھے اور میر صاحب صاحب عالم کے کان میں مگر پھر سمجھ میں نہ آتی تھی اور اس شور اور ہولناک آواز نے دلوں میں دھڑکن پیدا کردی۔ ہر شخص کو یہ معلوم ہوتا تھا کہ گھڑی دو گھڑی میں دم نکل جائے گا ۔ گھوڑوں نے اگاڑیاں پچھاڑیاں توڑ ڈالیں اور اردوئے معلی سے نکل کر بھاگ گئے۔ ایک ہاتھی اور ہتنی ساتھ تھی وہ دونوں تھر تھر کانپ رہے تھے، دو ایک گھوڑے زمین پر گرپڑے اور مرغ بسمل کی طرح تڑپنے لگے۔ ان مسافروں کے لیے یہ رات قیامت کی رات بن گئی۔ صاحب عالم نے حکم دیا کہ تمام لشکر میں خوب روشنی کی جائے تاکہ ایک دوسرے کی صورت تو دیکھتا رہے مگر یہ حکم اشاروں میں دیا گیا۔ رات کے دس بجے سے رات کے دو بجے تک رات اسی دھوم دھام سے بجتی رہی اور انسانوں کے حواس خمسہ کھوتی رہی۔ صاحب عالم اور میر سنگی صاحب دوات قلم لے کر بیٹھ گئے اور لکھ لکھ کر آپس میں باتیں کرنے لگے۔ رات ڈھلنے کے ساتھ رات بجنے کی صدا بھی دھیمی ہونے لگی یہاں تک کہ صبح کے وقت بالکل موقوف ہو گئی۔

شاہ خاور مشرقستان سے نکل کر صاحب عالم کے لیے اردوئے معلی میں حاضر ہوا تو خاص و عام نے ایک دوسرے کی صورت دیکھ کر کہا تمھاری صورت بالکل زرد ہوگئی ہے۔ صاحب عالم نے اور میر سنگی صاحب نے جو آئینہ دیکھا تو فی الحقیقت اپنے اپنے منہ یرقان زدہ پائے یا ہلدی کا اوبٹنا ملا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ رات بھر کوئی انسان حیوان سویا نہ تھا اور نہ کسی نے آرام پایا تھا، اس واسطے سب پر سستی کاہلی چھائی ہوئی تھی۔ میر سنگی صاحب نے صاحب عالم سے کہا کہ فورا کوچ کا حکم دیا جائے کیونکہ یہ مقام زہر ہے، ایک رات رہنے سے آدمی اور جانور مردہ ہو گئے ہیں اگر دو ایک دن یہاں اور رہے تو شاید سب کا کام تمام ہوجائے۔ صاحب عالم نے فرمایا آپ درست فرماتے ہیں اور اسی وقت روانگی کا حکم دے دیا۔ اردوئے معلی پہلے سے چلنے کا بندوبست کر چکا تھا، صاحب عالم کے حکم کے ساتھ ہی سب وہاں سے چل دیے اور بھاگا بھاگ اس گاؤں پر پہونچ کر ڈیرے ڈال دیے جس سے کل دو گنوار پکڑے آئے تھے ۔ گاؤں والوں نے کہا بہت اچھا ہوا آپ وہاں سے اٹھ آئے، اس جگہ کا خاصہ ہے کہ باہر کا جو چرند پرند یا کوئی آدمی وہاں آ کر ٹھہر جاتا ہے تو اس آواز کو سن کر تین دن میں اس کا خون خشک ہو جاتا ہے اور تڑپ تڑپ کر مر جاتا ہے۔ میر سنگی صاحب نے ان سے کہا تم آخر پاس کے رہنے والے ہو تم نے بھی سمجھا کہ یہ آواز کیسی ہے اور کہاں سے آتی ہے؟ ان لوگوں نے کہا ہم کیا ہمارے بڑے ہزاروں برس سے اس گاؤں میں رہتے چلے آئے ہیں مگر یہ بھید کسی کو نہ معلوم ہوا کہ رات کیوں بجتی ہے اور رات ڈھلنے کے ساتھ اس کی آواز کیوں کم ہوتی جاتی ہے، اسی وجہ سے ہم لوگوں نے اس کا نام رات بجنا رکھ لیا ہے کہ باجن بجتے ہوئے معلوم ہوتے ہیں۔


(4)

اس گاؤں میں جس کا نام یاد نہیں رہا پھر صاحب عالم نے کوچ کیا اور بہت زحمت اور تکلیف اٹھا کر پلا گاؤں تک پہونچے کیونکہ اس سے پہلے گاؤں سے پلا تک نہ کوئی لیکھ تھی نہ کوئی بٹیہ تھی، نہ پگ ڈنڈی تھی۔ جب آدمی ہی نہ ہوں تو لیکھ اور پگ ڈنڈی کس طرح بنتی ۔ صاحب عالم نے پلا کے کنارے پر قیام فرمایا اور اس شکاری راجپوت سنگھ کو بلوایا۔ اس راجپوت کا نام یاد نہیں رہا، اس لیے میں ضرورت کے لیے راجپوت سنگھ لکھوں گا کیونکہ اس کا جابجا ذکر آئے گا۔ راجپوت سنگھ حکم پہونچتے ہی حاضر ہوا۔ وہ بھی جنگلی بھاشا بولتا تھا۔ صاحب عالم نے اس سے کجلی بن کا حال اور شیر کے متعلق جو اس سے پوچھا تھا اس کا یہ جواب دیا۔

راجپوت سنگھ: جناب عالی بن کا نام کجلی بن نہیں ہے بلکہ گجلی بن ہے کیونکہ گج سنسکرت زبان میں ہاتھی کو کہتے ہیں۔ اس بن میں جو ہاتھی رہتے ہیں اس کا نام گجلی بن رکھا گیا تھا مگر بگڑ کر گجلی بن سے کجلی بن ہوگیا۔ ہمارا گاؤں ایک راجا کی حکومت میں ہے۔ ہم اپنے گاؤں کی پیداوار میں سے تھوڑی سی جنس دھان کی اس راجا کو اُگاہی کے طور پر دیتے ہیں سنا ہے وہ راجا تھوڑا سا روپیہ بادشاہ کو دیتا ہے۔

کجلی بن ہمارے اس گاؤں سے سات کوس دور ہے اور سینکڑوں کوس تک چلا گیا ہے۔ اس کے اندر بعض درخت دو دو ہزار برس کی عمر کے ہیں اور سال، ساگوان، ابنوس،ہلدو اور قسم قسم کے درخت جن کے تنہ ہاتھیوں کے کمر برابر اور ان سے زیادہ گولائی کے ہیں جن کے نام ہمیں معلوم نہیں ہیں۔ اور ان کی اونچائی لمبائی اتنی ہے کہ دیکھنے والا گمان کرتا ہے کہ ان کی پھننگیں اور چوٹیاں آسمان سے جا لگی ہیں۔ شیر، ریچھ، بندر، لنگور، ہاتھی، ساردھول، بھیڑیے، گیدڑ، لومڑی، ہرن، پاڑھے، چیتل،نیل گائے، بارہ سنگے، سور اور ہزاروں قسم کے چرند اس میں رہتے ہیں کہ راجا ہیر بکرماجیت کے زمانے سے لے کر اور مسلمان بادشاہوں کی عملداری سے اب تک عمارت کے کام کی لکڑی اس بن میں سے ٹھیکہ دار لوگ کاٹ کر بھیجتے رہے اور اب بھی بھیجتے رہتے ہیں مگر اس کا ایک کونا بھی خالی نہیں ہوا ہے۔ اس بن کے اندر جانا خطرے سے خالی نہیں ہے، آدمی اس کی سیر کرتا ہوا یا شکار پر داؤ کرتا ہوا چلا جاتا ہے اور شام ہو جاتی ہے اور پھر اسے پلٹنے کا موقع نہیں ملتا ہے۔ رستہ کا تو کوئی نشان ہوتا ہی نہیں ہے، اس لیے پھر کر کیونکر آئے۔ اندھیرا ہوتے ہی شیر اس کا شکار کرلیتے ہیں یا بھیڑیے اس کی تکا بوٹی کر ڈالتے ہیں۔ یا ریچھ بندر اس کے ٹکڑے اڑا دیتے ہیں یا ہاتھی اسے کچل ڈالتے ہیں۔ لکڑی کاٹنے والے مزدور سو سو دو دو سو اکٹھے ہو کر کام کرتے ہیں، ایک جگہ ٹھیکیدار اپنا ڈیرا ڈالتا ہے اور ڈیرے کے آس پاس ایندھن انبار کرکے شام کے وقت اس میں آگ لگا دیتا ہے۔ بن کے جانور کیا ہاتھی کیا شیر سب آگ سے ڈرتے ہیں اور آگ دیکھ کر بھاگ جاتے ہیں۔ ٹھیکیدار کے ساتھ ایسے بڑے بڑے مضبوط چھکڑہ ہوتے ہیں جن میں پچاس پچاس اور سو سو بیل جوتے جاتے ہیں اور ان چھکڑوں پر شہتیر اور موٹے موٹے لٹھے لاد کر دور دور لے جاتے ہیں۔ اس محنت سے بہت سے بیل مر جاتے ہیں۔ میں سو پچاس بار شکار کی وجہ سے بن میں داخل ہوا ہوں اور چالیس چالیس پچاس پچاس کوس تک اس کے اندر چلا گیا ہوں تو میں نے اس میں میدان بھی کف دست پائے ہیں۔ ندی نالے بھی زور شور سے بہتے دیکھے ہیں۔ چشمہ جھیلیں اور قدرتی تالاب بھی بہتے ہیں اور ان ندی نالوں پر مختلف قسم کے پرندے دکھائی دیے ہیں۔ یہ بھی میں نے جانچ کی کہ بن کی بسنے والی مخلوق نے بن کو اپنے لیے بانٹ لیا ہے۔ کہیں خصوصیت کے ساتھ ریچھ، کسی ٹکڑے میں بندر، کسی میں ہرن، کسی میں ہاتھی اور کہیں شیر رہتے ہیں ۔ تجربہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ جانور اپنی سرحد سے دوسرے جانوروں کی سرحد میں مصیبت پڑنے پر جا کر گھستے ہیں۔ مگر شیر ہر حصہ میں بن کے اور جانوروں کے ہر سرحد میں چلا جاتا ہے ۔ اس سے سمجھا جاتا ہے کہ وہ سب جانوروں کا مہاراجا ہے اور سب جانور اس کی رعیت ہیں۔ جن علاقوں میں خاص کر شیرنیاں رہتی ہیں اور بچہ دیتی ہیں اور شیروں کے گرمی اور سردی کے رہنے کے جنگل مجھے اور میرے عزیزوں کو معلوم ہیں۔ ان اپنے عزیزوں میں سے فدوی ایک دو آدمیوں کو حضور کے ساتھ بھیج دے گا اور جب تک حضور شکار کھیلیں گے وہ حضور کے ساتھ رہیں گے۔ شیر کا شکار یہ غلام بھی کرتا ہے اگر حضور فرمائیں تو پہلے میں شکار کرکے اپنے کرتب دکھاؤں یا جب حضور اپنے قاعدے سے شیر کا شکار کر لیں تو غلام کو یاد فرمائیں غلام حاضر ہو کر اپنے شکار دکھائے۔ صاحب عالم نے خیال کیا کہ میں راجپوت سنگھ سے اگر یہ کہوں گا کہ تم شیر کا شکار دکھاؤ تو سمجھے گا کہ بادشاہ زادے کو شیر کا شکار نہیں آتا ہے، اس لیے کہا ہم اپنے طور پر شکار کھیلنا چاہتے ہیں، جب ہم شیروں کا شکار کر کے اپنا جی بھر لیں گے تو تمھیں بلا کر تمھاری ہنرمندی دیکھیں گے۔ البتہ تم اپنے دو تین آدمی رہبری کے لیے ہمارے ساتھ کردو۔


(5)

راجپوت سنگھ نے اپنے دو بھائی صاحب عالم بہادر کے ساتھ کر دیے اور صاحب عالم نے پانچ دن تک بلا ناغہ کوچ کیا تو کجلی بن کے دروازے تک پہونچے۔ راجپوت سنگھ نے کجلی بن کا جو حال بیان کیا تھا وہ آنکھوں کے سامنے عیاں ہونے لگا۔ اتنے بڑے بڑے درخت دکھائی دیے کہ جن کی بلندی گویا قطب صاحب کی لاٹھ کے برابر تھی اور ان کی موٹائی اور تنا آوری کو دیکھ کر دلوں میں ہول پیدا ہوتا تھا۔ ایک دن کجلی بن کے دروازے پر ڈیرا کیا اور دوسرے دن صبح ہی بن کے اندر داخل ہو گئے اور درختوں کی جڑیں جو دست انسانی نے کاٹے تھے گز دیڑھ گز اونچی کھڑی ہوئی کہہ رہی تھیں:

ابھی اس راہ سے کوئی گیا ہے

کہے دیتی ہے شوخی نقش پا کی

درخت چونکہ خودرو تھے اس لیے بہت ہی پاس پاس تھے اور ان کی چوٹیاں اوپر جا کر ایک ہوگئی تھیں۔ اس لیے پتوں اور ٹہنیوں کی چھت بن گئی تھی اور ان میں جو دھوپ کم چھنتی تھی اسی لیے دوپہر دن سے یہ گمان ہوتا تھا کہ شام قریب ہے۔ رہبروں نے کہا ان درختوں سے نکل چلیے کیونکہ اگر درختوں کے نیچے رات ہو گئی تو بڑی مشکل ہوگی۔ ایسا اندھیرا ہوگا کہ ہاتھ کو ہاتھ نہ دکھائی دے گا اور موذی جانور چاروں طرف سے بہہ پڑیں گے اور ستائیں گے اور ان درختوں کی جڑوں میں دس دس پانچ پانچ گز لمبے سانپ رہتے ہیں اور بڑے زہریلے ہیں۔ وہ گھوڑوں اور آدمیوں کو کاٹیں گے اور آدمی اور گھوڑے پانی ہوکر بہہ جائیں گے۔ گھن دار ہونے کے سبب سے ہوا بھی ان کے نیچے کم آتی ہے اور رات کو ان کے نیچے اس بلا کی گرمی ہوتی ہے کہ آدمی یہ جانتا ہے کہ آگ کی بھٹی میں گر گیا ہوں۔ مچھر ایسے زہریلے کہ ان کے کاٹے سے آدمی کا سارا بدن سوج جاتا ہے اور کھجاتے کھجاتے پاگل بن جاتا ہے ۔ اس بات کو سن کر سوار اور پیدل قدم اٹھا کر چلنے لگے مگر بار برداری کے چھکڑوں کا ایسی جگہ لے جانا بہت دشوار تھا، بیلوں سے جلدی چلا نہ جاتا تھا۔ چھکڑے والے بہتیری تک تک کرتے تھے مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوتے تھے۔ مگر پھر بھی شام سے پہلے پہلے سارا لشکر صاحب عالم کا ان درختوں میں سے گزر کر ایک فراخ اور کھلے میدان میں پہونچ گیا۔ رہبروں نے کہا یہ میدان بیس کوس لمبا اور بیس کوس چوڑا ہے، اس میں جھیلیں اور ندیاں رواں دواں ہیں اور پرندوں کا شکار طرح طرح کا ہے۔ چونکہ رات ہوگئی تھی اس لیے صاحب عالم اور ان کے اردوئے معلی نے آرام کیا، پہرہ چوکی رات بھر سب اچھی طرح رہا۔ ادھر ادھر سے جھاڑ جھنکاڑ تبردار سے کٹوا کر ڈھیر کروا دیے اور ان میں آگ لگوا دی تھی۔ اس لیے کوئی موذی جانور اردوئے معلی کے پاس نہیں پھٹکا۔ صبح ہی صاحب عالم اور میر سنگی صاحب اور دو ایک مصاحب گھوڑوں پر سوار ہوکر میدان کی سیر کو چلے، دو تین قراول بھی گھوڑوں کا شکار بند پکڑ کر ساتھ چلے۔ صبح کا سہانا وقت، ہری ہری گھاس اور جنگلی درختوں کے پھول اور پھولوں پر اوس کی بوندیں عجب بہار دے رہی تھیں جو سامنے ایک جھیل دکھائی دی اور جھیل کے اندر اور اس کے کنارے پر سارس، کونجیں، کلنگ، مرغابیاں، پن ڈوبے، کلکلے، سرخاب، نکٹے، چہیے،بزہ،حواصل ، کبود وغیرہ بیٹھے کلیلیں کر رہے تھے، مگر قدرت الہی کا ایک نمونہ عجیب دکھائی دیا یعنی ایک قسم کی کونجیں جھیل کے کنارے دوب کی پتیاں نوچ نوچ کر کھا رہی تھیں۔ جن کے دو بازوؤں میں سے ایک بازو میں معمولی پر نہ تھے، ان کے لال لال بازو بے پر کے الگ دکھائی دے رہے تھے مگر بے پر کے بازو مع ہڈی کے مڑ کر ہک بن گئے تھے، صاحب عالم نے میر سنگی صاحب سے کہا یہ صنعت الٰہی درود پڑھنے کے لائق ہے مگر یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ جانور ایک بازو سے اڑتے کیسے ہوں گے۔ انھیں اڑا کر دیکھنا چاہیے اور معلوم کرنا چاہیے کہ آیا یہ اڑتے بھی ہیں یا نہیں، صاحب عالم کا اشارہ پا کر ایک قراول نے مٹی کا ڈھیلا ان کی طرف پھینکا اور سب نے دیکھا کہ ان جانوروں نے ایک چیخ ماری اور ایک نے اپنے بازو کے ہک میں دوسرے جانور کے ہک کو ڈال دیا اور دونوں مل کر اس تیزی سے اڑے کہ دیکھنے والے حیران ہو گئے۔ اتفاقاً ان میں سے دو ایک پرند اڑ کر صاحب عالم کے سر کی طرف آئے اور صاحب عالم نے اڑتے ہی ان کے اوپر بندوق کا فیر کیا اور ان میں دو تین زخمی ہو کر زمین پر گرپڑے قراول بھاگ کر انھیں اٹھا لائے اور صاحب عالم نے اور سب نے دیکھا کہ ایک قسم کی کونجیں ہیں جو جثہ میں مور کے برابر ہیں اور خوب صورتی میں پری سے کم نہیں اور خلّاق عالم نے ان کے بازو اس طرح سےبنائے ہیں کہ ایک کا دایاں بازو پردار اور دوسرے کا بایاں ہک دار ہے اور دوسرے کا بایاں پردار اور دایاں ہک دار ہے تاکہ جب وہ اڑنا چاہیں تو اپنا اپنا ہک دار بازو جوڑ لیں اور اڑ جائیں۔ صاحب عالم نے فرمایا یہ حلال جانور ہے اسے ذبح کرو اور باورچی خانے میں پہونچا دو۔ قورمہ اور کباب تیار کیے جائیں۔

پھر صاحب عالم اور آگے تشریف لے گئے اور بہت سے پرند شکار کیے اور دس بجے اردوئے معلی کو واپس آ گئے۔ رہبروں نے کہا حضور آگے بن میں ایسا کوئی رستہ نہیں ہے جس میں حضور کی سواریاں اور چھکڑے جا سکیں، اس لیے چھاؤنی حضور اپنی میدان میں رکھیں اور شکار کے لیے جدھر چاہیں ادھر جائیں اور شکار کھیل کر چھاؤنی میں واپس آ جائیں کیونکہ چھاؤنی کے لیے بن میں سو دو سو میل تک جگہ نہیں ہے۔ صاحب عالم کو رہبروں کی یہ بات ماننی پڑی۔

دوپہر کے وقت صاحب عالم نے خاصہ نوش فرمایا تو ان نئی قسم کی کونجوں کا قورمہ اور کباب بہت لذیذ پائے، ان کے گوشت میں بجائے بساند کے مشک جیسی خوشبو تھی۔

رہبروں نے کہا یہاں سے دس کوس پر شیروں کے رہنے کی جگہ ہے اگر حضور کا جی چاہے تو کل ادھر تشریف لے چلیے۔ اب رمضان شریف کا مہینہ شروع ہو گیا تھا، جن لوگوں کو خدا نے توفیق دی تھی انھوں نے اس جنگل میں بھی روزے رکھنے شروع کر دیے۔ صاحب عالم نے فرمایا کل میں شیر کے شکار کو جاؤں گا، پچاس پیدل میرے ساتھ ہوں گے اور ان کے ہاتھوں میں بلم ہوں گے۔ ایک ہاتھی پر دھونسہ اور دھونسے والے ہوں گے اور ان کے ساتھ کئی باجے والے اور بھی ہوں گے۔ ایک عماری کے ہاتھی پر سوار ہوں گا ، میری خواصی میں دو آدمی دو نالی بندوقیں لیے بیٹھیں گے۔ میرے پاس دو الگ ہوں گی۔ جب میں اپنی بندوق خالی کر دوں گا تو میری خواصی والے بھری بھرائی بندوق مجھے دے دیں گے اور اسی طرح وہ جلدی جلدی بندوق کو گولی بارود سے بھرتے رہیں گے ۔ ہتنی پر جو شیر کے ساتھ لڑنے میں مشاق ہے میر سنگی صاحب مع اپنے دو رفیقوں کے سوار ہوں گے۔ اگر کسی جگہ پر ہاتھی نہ جا سکے گا تو میں اتر کر پیدل چلوں گا اور شیر کا شکار پیادہ ہی کروں گا۔ یہ بھی خبر نہیں کہ کس وقت تک پلٹ کر چھاؤنی میں پہونچوں گا۔ اس لیے بکاول کو چاہیے کہ کہاروں کی بہنگیوں میں کھانا بھیج دے، یہ حکم سر شام اس لیے دیا گیا ہے کہ میرے ساتھ چلنے والے شیر کا شکار بخوبی کر لیں۔


(6)

صبح کی نماز پڑھ کر صاحب عالم ہاتھی کی عماری میں سوار ہو گئے اور صاحب عالم کے ہاتھی کے ساتھ میر سنگی صاحب کی ہتنی بھی ہولی، صاحب عالم کے ہاتھی پر اور میر صاحب کی ہتنی پر پانی کی ایک چھاگل بھی تھی۔ دو رہبر راجپوت سنگھ نے بھیج دیے تھے وہ آگے آگے جا رہے تھے اور ان کے ہاتھوں میں بھی بلم تھے جن کے پھل بجلی کی طرح چمک رہے تھے۔ شیر کی تلاش میں صبح سے دوپہر دن ہو گیا مگر شیر کا پتہ نہ چلا۔ رہبر برابر کہتے رہے کہ شیر جھاڑیوں میں ضرور ہے ابھی نہیں ملا تو کیا ہے۔ گھنٹہ دو گھنٹہ میں مل جائے گا، صاحب عالم نے مع اپنے ساتھیوں کے ایک جگہ فرش بچھوا کر کھانا نوش فرمایا۔ میر صاحب نے کہا، جناب عالی دن کا ایک بج گیا ہے اور ہم چھاؤنی سے اس قدر دور نکل آئے ہیں کہ اگر اب سے چلیں گے تو مغرب کے بعد چھاؤنی میں پہونچیں گے اور اگر حضور نے یہیں شام کی تو پھر چھاؤنی تک پہونچنا مشکل ہوگا۔ کیونکہ جن درختوں میں سے آپ کا ہاتھی پھنس کر نکلا ہے رات کے وقت ان میں سے گزرنا بالکل ناممکن ہے۔ رہبروں نے بھی یہی کہا کہ حضور اب چھاؤنی ہی کو چلے چلیے ہم (ناہروں کی رہتان ) سے یعنی ان کے رہنے کی جگہ سے کچھ آگے نکل آئے ہیں۔ توقع ہے کہ حضور جب پلٹ کر چلیں گے تو شیروں سے مڈبھیڑ ہو جائے گی۔ صاحب عالم نے فرمایا کہ میرا ارادہ تو یہ تھا کہ چاہے ساری رات مجھے ہاتھی پر سوار ہوئے گزر جائے مگر بے شیر کا شکار کیے نہ پلٹوں۔ مگر تم لوگ یہ جو کہتے ہو شیروں کے رہنے کا مقام پیچھے رہ گیا ہے اس لیے میں واپس چلتا ہوں۔ یہ کہہ کر صاحب عالم نے فیل بان سے کہا ہاتھی کو پھیرو اور صاحب عالم مع اپنے ساتھیوں کے اردوئے معلی کی طرف چلے، ابھی ایک میل ہی چلے ہوں گے جو کانوں میں بادل کے گرجنے کی آواز آئی۔ رہبروں نے کہا شیر دڑوک رہے ہیں، ہمارے بچار میں تو تین شیروں سے کم نہیں ہیں۔ صاحب عالم نے اپنی دونالی سنبھالی اور حکم دیا دھونسے اور باجے زور زور سے بجاؤ۔ حکم کے ساتھ ہی دھونسے اور باجوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا اور ان کی صدائیں بن میں گونجنے لگیں اور بن کے رہنے والے جانوروں میں ہلچل مچ گئی۔ گیدڑ، بھیڑیے، خرگوش اور جنگلی سور ادھر سے ادھر بھاگتے ہوئے دکھائی دیے ۔ صاحب عالم کے داہنی طرف کی جھاڑی میں سے ایک شیر نکل جانا چاہتا تھا جو اس نے دیکھا کہ دونوں جھاڑیوں کے بیچ میں صاحب عالم بہادر کا ہاتھی اڑا کھڑا ہے یہ اسے بہت ناگوار گزرا۔ اس نے عماری میں صاحب عالم بہادر کو کھڑا دیکھ لیا اور وہ غرش کے ساتھ ہاتھی کی طرف لپکا مگر صاحب عالم اسے ہاتھ تک کب آنے دیتے تھے۔ بندوق کا فیر کیا اور گولی اس کی دونوں آنکھوں کے بیچ میں جا کر بیٹھی اور شیر الٹ کر گرا اور اس نے ایک جگر شگاف نعرہ مارا جس کے ہول سے صاحب عالم کے ہاتھی نے پیشاب اور لید کر دی اور تمام کجلی بن لرز گیا، صاحب عالم کی اس قادر اندازی پر سب آدمی سبحان اللہ کہہ رہے تھے جو یہ معلوم ہوا آسمان سے بجلی گری مگر بجلی نہیں گری تھی شیرنی شیر کو مردہ دیکھ کر جھلاتی ہوئی آئی تھی اور چاہتی تھی کہ ہاتھی کی سونڈ پر چڑھ کر صاحب عالم کو عماری میں سے پنجہ ڈال کر گھسیٹ لے، ہاتھی قیں کرکے اور سر ہلا کر پلٹنا چاہتا تھا جو مرزا شاہرخ نے دوسری نال بندوق کی شیرنی پر خالی کی، ادھر سے جس ہتنی پر میر سنگی صاحب سوار تھے اس نے شیرنی پر مہرہ کیا۔ صاحب عالم کی گولی شیرنی کے بھیجے پر پڑی تھی، اس کا بھی کام تمام ہوا اور ہتنی نے اسے اپنے پاؤں سے کچل ڈالا۔ ہاتھی کے سر سے لے کر سونڈ تک برگستوان فولادی یعنی پاکھر پڑی ہوئی تھی، نہیں شیرنی ضرور اس کی سونڈ اور اس کے سر کو کھا جاتی۔ مہاوت جو ایک دلیر آدمی تھا، اس نے بھی اپنی کٹار سے شیرنی کو روکا تھا، نہیں وہ اس کا بھی کام تمام کرتی اور بے شبہ عماری تک پہونچ جاتی۔ شکار کے بعد بھی دیر تک دیکھنے والوں کے دل کانپتے رہے اور مرزا شاہرخ بہادر کی ہنسی کسی طرح تھمتی ہی نہ تھی، عماری میں بیٹھے بیٹھے لوٹے جاتے تھے۔

دن ڈگڈیوں ہوگا جو صاحب عالم اردوئے معلی میں میر سنگی صاحب پہونچ گئے اور قراول رات کے بارہ بجے ان شیروں کو اٹھوا کر چھاؤنی میں لے آئے، صاحب عالم بارگاہ میں زینت بخش تھے۔ میر سنگی صاحب نے عرض کی، خداوند نعمت خدا کا شکر ہے آج ایسا شکار ہوا کہ آگے توقع نہیں ہے کہ اس سے بہتر شکار ہو کیونکہ نوکروں کا بال بھی بیکا نہیں ہوا، نہیں شیر کے شکار میں اکثر پیادہ زخمی ہو جاتے ہیں کیونکہ شیر پہلے ان سے ہی مصافحہ کرتا ہے، پھر ایک شیر میں دو شیر شکار ہو گئے۔

صاحب عالم : بھئ میر سنگی تم کہتے سچ ہو، شیرنی شیر سے زیادہ پھرتیلی اور غصیل ہوتی ہے۔

اسی طرح بیس دن میں اٹھارہ شیر صاحب عالم نے شکار کیے اور کھال بنانے والے جو ساتھ تھے انھوں نے سب کی کھالیں درست کر لیں ۔ایک دن صاحب عالم بے وردی پہنے اردوئے معلی سے بندوق ہاتھ میں لے کر نکلے اور ایک کالے تیتر کے پیچھے چلے۔ شکاری جانتے ہیں کہ کالا تیتر بڑا دھوکا باز جانور ہے ۔ مشکل سے بندوق کی مار پر آتا ہے، ابھی یہاں بولا پھر وہاں جا بولا، اسی طرح کئی کئی فرلانگ بھگاتا چلا جاتا ہے ۔ تیتر کہیں چھپ گیا اور صاحب عالم اردوئے معلی میں واپس نہ آئے، میر سنگی صاحب خود چاروں طرف ڈھونڈ آئے اور بہت سے پیادہ اور قراول دوڑتے پھرے اور پھر رہے تھے، صاحب عالم کا کہیں پتہ نہ تھا۔ سب لوگ دق اور پریشان تھے، خاص کر میر سنگی صاحب کو بڑی فکر تھی۔ کیونکہ بادشاہ نے صاحب عالم کا ہاتھ ان کے ہاتھ میں دیا تھا، اسی تردد میں دن کٹ گیا۔ نہ صاحب عالم آئے نہ کوئی خبر لے کر پلٹا۔ میر سنگی صاحب مغرب کی نماز پڑھ کر دعا مانگ رہے تھے کہ الٰہی بادشاہ زادے کی جان کی خیر کرنا اور مجھ ناچیز کے منہ کو کلنگ کا ٹیکا نہ لگانا جو دنادن بندوق کی دو آوازیں کان میں آئیں اور میر صاحب اور بہت سے نوکر چاکر بندوق کی آواز کی طرف دوڑے۔ کوئی تین کوس پر جا کر یہ تماشا دیکھا کہ ایک شیر جو اگلے شیروں سے زبردست ہے صاحب عالم کی بندوق سے ہلاک ہوا خاک پر پڑا ہے اور صاحب عالم اس پر چڑھے بیٹھے ہیں اور ایک بگیلا شکار کیا ہوا صاحب عالم بہادر کے پاؤں میں لوٹ رہا ہے۔ میر سنگی صاحب پہلے آداب بجا لائے پھر صاحب عالم کے دست مبارک کو بوسہ دیا اور پانچ روپیہ جیب سے نکال کر صاحب عالم پر سے صدقہ کرکے پھینک دیے۔ صاحب عالم نے فرمایا، بھئی میر سنگی! آج خدا نے ہی میری جان بچائی۔ میں اکیلا اور یہ دو میری جان کے خواہاں تھے، مجھے ایک تیتر نے دھوکا دیا، میں اردو سے نکل کر اس کے پیچھے چلا اور اردو سے کوسوں دور نکل آیا اور پھر ایسے خارستان میں پھنس گیا کہ دن کو تارے دکھائی دے گئے ۔ آج صبح سے پانی تک نصیب نہیں ہوا۔ جب شام ہونے لگی تو میں اٹکل سے اپنے اردو کی طرف پلٹنے لگا کیونکہ ہمارا اردو مغرب کی طرف ہے۔ چلتے چلتے جب میں اس شیر سے پچاس قدم رہا تو میں نے دیکھا کہ یہ شیر ایک درخت کے نیچے بیٹھا اپنے منہ کی مکھیاں سر ہلا ہلا کر اڑا رہا ہے میں نے بندوق سنبھالی اور اس کے سر کا نشانہ باندھ کر چاہا تھا کہ لبلبی دبا دوں جو مجھے اپنے پیچھے کچھ آہٹ معلوم ہوئی گردن پھیر کر دیکھتا ہوں تو معلوم ہوا یہ بگیلا مجھ سے پانچ قدم پر دانت نکوسے کھڑا ہے اور بلی کی طرح دم ہلا رہا ہے۔ میرا گمان یہ ہے کہ اس بگیلے نے شیر کو دیکھ لیا تھا اور وہ مجھے شیر کا لقمہ سمجھ کر میرے اوپر حملہ کرنے سے رک رہا تھا۔ شیر کے ڈر کے مارے اس کی ہمت نہ پڑتی تھی کہ وہ مجھ پر آ پڑے مگر للچا للچا کر گھور رہا تھا اور دانت پیس رہا تھا۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ کس قوت نے میرا ہاتھ اور میری بندوق اس بگیلے کی طرف پھیردی مگر الحمد للہ کہ میری بندوق نے ایسا کام دیا کہ اس کی گولی بگیلے کے حلق میں سے گدی توڑ کر نکل گئی اور میں پھر شیر کی طرف مڑا اور میں نے دیکھ لیا کہ شیر میری طرف جھپٹا۔ مگر خدا کی رحمت میری گولی اس کے آنے سے پہلے اس کے دماغ میں پیوست ہوگئی اور شیر بے جان ہوکر زمین پر گرا۔ صاحب عالم کے نوکر چاکر تو صاحب عالم کی تعریف کر ہی رہے تھے مگر وہ دونوں رہبر جو راجپوت کے بھائی تھے آ گئے تھے، انھوں نے صاحب عالم کے اس شکار کی بہت ہی صفت و ثنا کی اور کہا یہ کام آپ نے مردانگی کا کیا ہے۔ پھر سب ہمراہی صاحب عالم بہادر کو لے کر اردوئے معلی میں پہونچے۔ میر سنگی نے کہا، جناب عالی اگر حضور کا جی شیروں کے شکار سے سیر ہو گیا ہو تو اب شاہجہاں آباد کے پلٹنے کا ارادہ فرمائیے کیونکہ جناب عالیہ اور جہاں پناہ حضور کے فراق میں بے چین ہوں گے۔ حضور کو یاد ہوگا کہ جب آپ اعلی حضرت سے رخصت ہوئے تھے تو اعلی حضرت نے آپ کا ہاتھ پکڑ کر یہ شعر پڑھا تھا:

ازمن جدا مشو کہ تو ام نور دیدہ آرام جان و مونس قلب رمیدہ

اور حضرت کی آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے۔ صاحب عالم نے فرمایا اب ان شاءاللہ تعالیٰ جلد تر شاہجہاں آباد کو چلیں گے۔ کل ان دونوں رہبروں کو رخصت کیا جائے اور ان سے کہا جائے کہ راجپوت سنگھ کو ہماری طرف سے دعا پہونچائیں اور یہ کہیں کہ اب تم کجلی بن میں جلد پہونچو، ہم تو شکار کر چکے مگر تمھارے شکار کے دیکھنے کا بڑا شوق ہے۔ صاحب عالم کے فرمانے کے بموجب وہ دونوں آدمی پلاکو گئے اور انھوں نے راجپوت سنگھ کو اردوئے معلی کی جانب روانہ کیا۔ وہ جب اردوئے معلی میں داخل ہوا تو اس کے ساتھ پانچ چھ آدمی، دو گھوڑے، ایک چھوٹا سا خیمہ اور ایک بیلوں کا تانگہ اور دو کتے تھے جن کی آنکھوں پر چیتے کی طرح چمڑے کی ٹوپیاں چڑھی ہوئی تھیں۔ صاحب عالم نے میر سنگی کو حکم دیا کہ ہمارے مہمان راجپوت سنگھ کو اور ان کے آدمیوں کو اور ان کے جانوروں کو آرام سے ٹھہرایا جائے۔ میر سنگی صاحب نے جمعدار کو بلا کر صاحب عالم کا حکم سنا دیا۔ خاصہ نوش فرمانے کے بعد جب رات کو صاحب عالم سکھ کرنے کے لیے چھپر کھٹ میں لیٹے تو فرمایا راجپوت سنگھ کو حاضر کیا جائے۔ راجپوت آ گیا اور آداب بجا لا کر دست بستہ کھڑا ہو گیا۔ میر سنگی صاحب نے کہا، حضور فرماتے ہیں آپ سورج بنسی خاندان میں سے ہیں اور آپ کے خاندان کی ہمارے بڑوں نے ہمیشہ تعظیم کی ہے، آپ چاندنی پر بیٹھ جائیے۔ اور جب وہ بیٹھ گیا تو صاحب عالم نے ارشاد کیا آپ کل شیر کے شکار کو چلیں گے؟

راجپوت سنگھ : جی ہاں اگر حضور حکم دیں گے تو یہ غلام شیر کے شکار کو چلے گا۔

صاحب عالم : تو آپ ہاتھی پر عماری میں بیٹھیں گے یا گھوڑے پر سوار ہو کر شکار کریں گے۔ گھیرا ڈالا جائے گا یا کسی اور طرح شیر کو جھاڑی سے نکالا جائے گا؟

راجپوت سنگھ : حضور ہم غریب آدمیوں کے پاس ہاتھی کہاں سے آیا۔ میں تو پیدل شیر سے آمنا سامنا کرکے اسے مارتا ہوں۔ میرے ساتھ دو کتے ہوں گے اور وہ میرے پہلو میں تانگے کے کھٹولے پر بیٹھے ہوں گے۔ اس تانگے میں دو آدمیوں کے بیٹھنے کی اور جگہ ہے، اگر حضور کو میرا کرتب دیکھنا منظور ہے تو حضور کو بھی اسی تانگہ میں بیٹھنا ہوگا۔ زیادہ سے زیادہ ایک آدمی حضور اپنے پاس اور بٹھا لیں۔ دس بیس یا سو پچاس آدمی شیر کو نکالنے کے لیے درکار نہیں ہیں۔ صاحب عالم نے فرمایا جو تمھاری خوشی، ہم بھی تمھارے ساتھ تانگہ میں بیٹھ لیں گے۔ اچھا اب رات بہت آئی تم جا کر آرام کرو ۔ ابھی کچھ رات باقی تھی جو راجپوت سنگھ کے خیمہ سے بھجن گانے کی آواز آئی۔ اس سے معلوم ہوا کہ دھیان گیان کا آدمی ہے ۔ تارے صاحب عالم کے اردوئے معلی کو غور سے دیکھ رہے تھے اور نورانی زبان میں کہہ رہے تھے کہ آج ایک سورج پورب سے نکلے گا اور دوسرا سورج دہلی کا بادشاہ زادہ اپنی بارگاہ سے باہر آئے گا۔ ہم اس انتظار میں ہیں کہ دونوں آفتاب نکلیں اور ہم دیکھیں کہ چمک دمک دہلی کے بادشاہ زادے کے رخسار میں زیادہ ہے یا پرانے سورج میں ۔

صاحب عالم اور میر سنگی صاحب صبح کی نماز سے فارغ ہو کر خیمہ سے باہر آئے ہی تھے جو اطلاع ہوئی کہ راجپوت سنگھ اپنا تانگہ لے کر در دولت پر حاضر ہے۔ صاحب عالم اپنی دونالی ہاتھ میں لے کر خیمہ سے نکلے تو دیکھا راجپوت سنگھ گاڑی بان بنا ہوا تانگہ کے جوئے پر بیٹھا ہوا ہے اور اس کے ادھر ادھر دو کتے جو بہت دبلے پتلے ہیں مگر لمبے بہت ہیں تانگہ میں بیٹھے ہیں راجپوت سنگھ آداب بجا لایا اور دست بستہ کہنے لگا حضور تانگہ میں سوار ہو جائیں۔ صاحب عالم کے نوکروں نے تانگہ میں مخملی زردوزی گبا بچھا دیا اور صاحب عالم مع میر سنگی کے تانگہ میں بیٹھ گئے۔ تانگہ کے بیل بہت چالاک تھے اور اس ناہموار زمین پر اڑے چلے جاتے تھے۔ راجپوت سنگھ صاحب عالم کو ایسی جگہ لے گیا کہ انھوں نے اپنی اس مدت قیام میں کبھی نہ پہونچے تھے ۔ راجپوت سنگھ نے تانگہ ٹھہرا لیا اور تانگہ سے اتر کر دس پانچ قدم ادھر ادھر زمین کو دیکھتا بھالتا چلا گیا ۔ پھر پلٹ آیا اور صاحب عالم سے کہا میں شیر کا کھوج لے آیا۔ شیر ہرن اور نیل گائے کے مارنے کے لیے ندی پار گئے ہیں۔ آج ہمارا ان کا ضرور مقابلہ ہوگا اور تانگہ پر آ بیٹھا اور اس نے تانگہ ندی میں ڈال دیا۔ ندی بہت گہری تھی اور اس کا پانی موتی سے زیادہ اجلا تھا۔ ندی کی تہہ میں گھونگہ، سیپیاں اور قسم کی چھوٹی بڑی مچھلیاں نظر آ رہی تھیں۔ کوئی مچھلی ابلق، کوئی سبز، کوئی سرخ، کوئی سیاہ، کوئی نقرئی تھی ۔ کچھ مچھلیاں ایسی بھی نظر آئیں جن کا ایک پہلو سنہری اور ایک پہلو روپہلی تھا ۔ ندی میں بعض کیڑے بری صورت کے تھے جن کے دیکھنے سے نفرت پیدا ہوتی تھی۔ ندی کا پاٹ بہت چوڑا تھا اور تانگہ اس میں ناؤ کی طرح تیر رہا تھا، پانی کی دھار چاہتی تھی کہ اسے بہا لے جائے ۔ مگر بیل ایسے زور دار اور تیراک تھے کہ وہ پھرتی سے پانی کاٹتے چلے جاتے تھے ۔ تھوڑی دیر میں دوسرا کنارہ آگیا اور تانگہ بخیر و خوبی ندی سے نکل گیا، ابھی ندی سے پچاس قدم آگے آئے ہوں گے جو ایک طرف سے ہرنوں کی ڈار دوڑتی ہوئی آئی اور اس نے تانگہ کے آگے سے ہوکر دوسری طرف جانا چاہا۔ راجپوت سنگھ نے جلدی سے اپنے کتوں کی آنکھوں پر سے ٹوپی اتار لی اور ان کے گلے میں سے ڈوری بھی کھول دی۔ اتنے میں ایک شیر بھی آن پہونچا، در اصل ہرن شیر کو دیکھ کر بھاگے تھے ۔ شیر کی بو سونگھ کر کتے تانگے سے دھڑام دھڑام کودے اور انھوں نے بھونکنا شروع کیا ۔ کتوں کی آواز سن کر شیر نے اپنی توجہ ہرنوں کی طرف سے اٹھا لی اور وہ کتوں کی طرف آیا اور کتے بھی اس کی طرف لپکے۔ کتوں کے ساتھ ہی راجپوت سنگھ بھی اپنا کھانڈا لے کر کودا، کتوں نے شیر کو جا لیا۔ ایک کتا شیر کے منہ کی طرف دوسرا اس کی دم کی طرف گیا ۔ شیر نے بہت چاہا کہ وہ کتوں کو چیر پھاڑ کر پرخچا اڑا دے مگر وہ کتے ایسے پھرتیلے اور پچیت تھے کہ اس کے منہ اور پنجے کی پکڑ سے بالکل بچے رہے، وہ نہ شیر کو آگے بڑھنے دیتے نہ پیچھے ہٹنے دیتے تھے، اس میں راجپوت سنگھ بھی جا پہونچا اور اس نے کھانڈا نکال کر ایسا ہاتھ مارا کہ شیر کا سر تن سے جدا ہو کر دور جا پڑا، صاحب عالم کے منہ سے بے اختیار نکل گیا کہ واہ راجپوت سنگھ کیا کہنا ہے۔ آفریں ہے تیری ضرب و دست کو تیری ماں تجھے ہی جنے ۔ کتوں نے شیر کا خون پینا شروع کیا اور راجپوت سنگھ کے آگے دم ہلانے لگے اور غل مچانے لگے۔ راجپوت سنگھ نے کہا کیوں مرے جاتے ہو دیتا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے شیر کا پیٹ چاک کر کے اس کا جگر اور دل کتوں کے آگے ڈال دیا اور وہ ہپڑ ہپڑ کر کے کھا گئے۔ میر سنگی صاحب نے کہا، حضور نے دیکھا یہ کتے شیر کا شکار کیوں نہ کریں انھیں تو اس کے دل و جگر کے کباب بھاتے ہیں۔

اب دن کے بارہ بج گئے تھے۔ راجپوت سنگھ نے تانگہ کے اندر سے ایک تھیلا موم جامے کا نکالا۔ اس میں ناشتہ تھا اور ندی کے پانی کا اس پر ذرا اثر نہ ہوا تھا ۔ تینوں صاحبوں نے بیٹھ کر اسے کھایا ایک جھیل کا ٹھنڈا پانی پیا۔ اور راجپوت سنگھ ان صاحبوں کو لے کر بدستور تانگہ پر سوار ہوا اور ایک جھاڑی کے پاس پہونچ کر اس نے ایک شیر کا کھوج لے کر کہا شیر اس جھاڑی میں پڑا سوتا ہے ۔ اس نے اپنے دونوں کتے تانگہ سے اتارے اور انھیں جھاڑی کی طرف اشارہ کیا، وہ چپکے چپکے جھاڑی میں گھسے، کوئی دو منٹ بعد شیر کے دہاڑنے کی آواز آئی اور ساتھ ہی یہ تماشا دکھائی دیا کہ شیر بولایا ہوا آ رہا ہے اور ایک کتا اس کے نرخرے سے لپٹا ہوا جونک کی طرح لٹک رہا ہے اور دوسرا اس کی دم سے چمٹا ہوا لٹکتا چلا آتا ہے راجپوت سنگھ نے ترچھی کاٹ کر ایک ہاتھ کھانڈے کا ایسا مارا کہ شیر کھیرے ککڑی کی طرح بیچ میں سے دو ٹکڑے ہو کر آدھا ادھر آدھا ادھر گرپڑا ، صاحب عالم اور میر صاحب نے پھر راجپوت سنگھ کی بہت تعریف کی اور راجپوت سنگھ نے شیر کا کلیجہ اور دل نکال کر کتوں کے حوالہ کیا۔ صاحب عالم نے فرمایا، راجپوت سنگھ اس طرح شکار کرنا تمھارا ہی حصہ ہے ۔ بس اب زیادہ تکلیف نہ کرو ، چھاؤنی کو چلو۔ راجپوت سنگھ نے اس شیر کی کھال اتار کر تانگہ میں رکھ لی ۔ پھر جہاں دوسرا شیر مارا تھا وہاں آیا اس شیر کی کھال بھی اتار کر رکھ لی اور بیلوں کو بھگایا اور ندی تک پہونچ گئے اور ندی میں تانگہ ڈال دیا، ندی میں تانگہ چلا جاتا تھا۔ اتفاق اور موقع ندی کے اُس پار سے ایک شیر ادھر آ رہا تھا غالبا وہ ہرنوں کے شکار کی غرض سے ندی اترنا چاہتا تھا اور وہ بیچ ندی میں پہونچ گیا تھا ۔ راجپوت سنگھ نے اسے دیکھا اور اپنے دونوں کتوں کو اس ندی میں اتارا، کتے شیر کی طرف چلے اور اس کے ساتھ ہی راجپوت سنگھ بھی ندی میں کودا ۔ صاحب عالم نے میر سنگی صاحب سے فرمایا، بھئی میر سنگی آج جانوں کی خیر نہیں کیونکہ تانگہ والا تو شیر مارنے گیا ۔ اب یہ بیل ہمیں تمھیں اور تانگہ کو ندی میں ڈبو دیں گے ۔ ادھر کتوں نے جا کر شیر کا آگا روکا اور راجپوت سنگھ نے شیر کے پاس پہونچ کر ندی میں غوطہ مارا اور شیر کے پیٹ کے نیچے پہونچ کر پیش قبض سے اس کا پیٹ پھاڑ دیا کتے اسے لپٹ گئے اور بہادر راجپوت سنگھ سسکتے شیر کی ٹانگ گھسیٹ کنارہ پر لے آیا ۔ تانگہ کے بیل ایسے شائستہ تھے کہ آپ سے آپ تانگہ لے کر ندی اتر گئے ۔ راجپوت سنگھ نے شیر کا دل و جگر کتوں کو کھلا دیا اور اس کی کھال بھی اتار لایا ۔ صاحب عالم اور میر سنگی صاحب نے اس تیسرے شکار کی بھی بہت تعریف کی اور شام ہوتے ہوتے صاحب عالم بہادر مع راجپوت سنگھ اور میر سنگی کے اردوئے معلی میں پہونچ گئے اور صاحب عالم نے اسی وقت راجپوت سنگھ کو خلعت اور جڑاؤ کڑے عطا فرمائے، چھاؤنی کے خاص و عام نے راجپوت سنگھ کے شکار کا حال سنا تو انھیں بڑا افسوس ہوا کہ ہم نے نہ دیکھا ۔ آج رمضان المبارک ختم ہو گیا تھا اور آسمان پر ہلال عید جلوہ گر تھا۔ اردوئے معلی میں عید کی تیاری ہو رہی تھی۔ رات کے دو بجے تھے جو میر سنگی صاحب کی سواری کی ہتنی جو شیر کے شکار پر لگی ہوئی تھی، بری طرح چیخی اور ایسی دہاڑی کہ سارے اردوئے معلی میں جاگ ہو گئی ۔ اس ہتنی کا تھان بھی میر سنگی صاحب کے خیمہ کے پاس ہی تھا۔ ہتنی کے چیخنے چلانے کو سن کر میر سنگی صاحب ننگی تلوار ہاتھ میں لے کر اس کے تھان کی طرف دوڑے، روشنی والوں کو حکم تھا کہ خطرے کے وقت فوراً مشعل مہتاب روشن کریں ۔ اس لیے ذرا دیر میں ساری چھاؤنی روشن ہو گئی ۔ میر صاحب ہتنی کے پاس پہونچے تو انھوں نے دیکھا ایک زبردست شیر ہتنی سے لپٹا ہوا ہے اور چونکہ ہتنی کے اگلے اور پچھلے پاؤں میں مضبوط زنجیریں پڑی ہوئی ہیں اس لیے وہ بے چاری کھڑی کھڑی شیر کے تھپڑ کھا رہی ہے اور کانپ رہی ہے اور وہ شیر کو جواب نہیں دے سکتی ہے۔ میر صاحب نے للکارا کہ او کتے ادھر آ اس بیچاری ہتنی کو کیوں ستاتا ہے ۔ شیر کا قاعدہ ہے کہ وہ آواز پر آتا ہے اس لیے ہتنی کو چھوڑ کر میر صاحب کی طرف آیا۔ اس نے ہاؤ کرکے اور اپنے دونوں پچھلے پاؤں پر کھڑے ہو کر اگلے دونوں ہاتھوں کی تھاپ میر صاحب کے سر پر ماری مگر میر صاحب نے یہ کمال کیا کہ اس کی تھاپ پڑنے سے پہلے اس کے پیٹ کے نیچے پہونچ گئے اور خنجر سے اس کا پیٹ چاک کر دیا اور شیر لڑکھڑا کر زمین پر آیا تو اسے تلوار سے چورنگ کر ڈالا۔ صاحب عالم بہادر اور راجپوت سنگھ نے بھی یہ تماشہ اپنی آنکھوں سے دیکھا، صاحب عالم نے دوڑ کر میر سنگی صاحب کو اپنے گلے سے لگا لیا اور فرمایا خدا کا شکر ہے میر صاحب بھی بہادری میں راجپوت سنگھ سے کم نہیں ہیں ۔ ادھر راجپوت سنگھ نے میر صاحب کے ہاتھ چوم کر کہا واہ میر جی واہ میں تو کتوں کی آڑ میں شیر کا شکار کرتا ہوں اور آپ بےلاگ شیر مارتے ہیں، آپ ہی جیسے لوگوں کو سورما کہا جاتا ہے ۔ ہتنی بے چاری کو شیر نے جابجا سے زخمی کر دیا تھا اور خصوصاً اس کے سر پر سے کوئی پانچ سیر کا گوشت کا بوٹا اڑا دیا تھا ۔ صاحب عالم نے فرمایا فیلبان اور جراح مل کر اس کی مرہم پٹی کریں ۔ صبح ہوئی اور صاحب عالم نے مع اپنے ساتھیوں کے دوگانہ عید الفطر ادا کیا اور بارگاہ میں آ کر تشریف فرما ہوئے، نذریں پیش ہو رہی تھیں جو دلی کا قاصد حضور جہاں پناہ کا فرمان مبارک لے کر پہونچا، اس میں تحریر تھا کہ اے نور بصر لخت جگر! جلد آؤ، ہم تمھاری مفارقت میں سخت بے چین ہیں اور دن رات یہ شعر پڑھا کرتے ہیں:

از چشم بخت خویش مبادت گزند از آنک

در دلبری بہ غایت خوبی رسیدہ ای

ہماری طرف سے بعد دعا کے میر سنگی کو یہ مژدہ سناؤ کہ تمھارے گھر میں لڑکا پیدا ہوا ہے اور اس کے دادا نے اس کا نام اپنے دادا کے نام پر میر عرب رکھا ہے ۔ حضرت میر سنگی صاحب فرمایا کرتے تھے کہ کجلی بن میں ایک دن مجھے تہری خوشی حاصل ہوئی تھی، اول یہ کہ میں نے اسی دن شیر مارا تھا۔ دوسرے یہ کہ اسی دن عید تھی ۔ تیسرے اسی دن دہلی سے قاصد پہونچا اور میر عرب کی پیدائش کی خبر معلوم ہوئی تھی۔

جب صاحب عالم اس شکار سے فارغ ہو کر دہلی پہونچے تو شہر میں ان کے آنے کی دھوم مچ گئی، حضرت ابوظفر بہادر شاہ نے بیٹے کے آنے کا جشن کیا۔ صاحب عالم جہاں پناہ کے حضور میں عرض کر رہے تھے کہ قراولوں کا دستور ہے کہ ادھر شیر پڑا سسک رہا ہے اور یہ گھانس پھونس جلا کر اس کا منہ جھلس رہے ہیں ۔ اس پر شیخ ابراہیم ذوق نے برجستہ یہ شعر تصنیف کر کے بادشاہ اور صاحب عالم کو سنایا:

یاں تک عدو زمانہ ہے مرد دلیر کا جھلسے ہے منہ شکار کیے پر بھی شیر کا

قطعہ :

مرزا شاہرخ بہادر نے خونِ نخچیر سے ہوا سارا نہ بچا اس شکار افگن سے مرغ و سی مرغ اور غزال و پلنگ ہے جگر گوشہ بہادر شاہ سمجھے شیر آپ کو ہزار غنیم رہے مانند شیر قالیں کے ہاتھ میں جب تفنگ لی اس نے کئی شیر ژیاں شکار کیے ہے بجا گر دلاورانِ جہاں جب کہ اس جرأت و شجاعت کو تا رہے یادگار عالم میں


قصدِ صید افگنی کیا جس دم دامنِ دشت لالہ زار ارم صید کوئی سوائے صیدِ حرم ہوئے مسکن پذیر دشتِ عدم ہو بہادر نہ کیوں وہ نیک شِیَم اس کے پر سامنے ہے شیر علم اوج ہمت سے اس کے زیر قدم ہمسر اژدرہائے آتش دم اُس غضنفر شکار نے پیہم کھائیں اس کی دلاوری کی قسم چاہا اس طرح دل نے کیجیے رقم وصف عالی صاحب عالم

لکھی اے ذوقؔ میں نے یہ توصیف مع تاریخ ثانی رستم

مرزا شاہرخ بہادر کے شکار کا دلی میں اس قدر چرچا ہوا کہ داستان گو اسے لوگوں کو سنایا کرتے تھے، عورتوں نے گیت بنائے۔ چنانچہ میں نے دلی کی بڑی بوڑھی عورتوں سے ایک گیت سنا جس کا سِرا مجھے یاد ہے اور وہ یہ ہے :

مرزا شاہرخ بن اکیلا

آگے شیر پیچھے بگیلا

بس اس سے زیادہ کیا لکھوں کہ دنیا اور دنیا کے جاہ و حشم فانی ہیں۔