در پہ اس شوخ کے جب جا بیٹھا
در پہ اس شوخ کے جب جا بیٹھا
یار سب کہتے ہیں اچھا بیٹھا
خوبیٔ قسمت قاصد دیکھو
پاس اس شوخ کے کیا جا بیٹھا
ہے حباب لب دریا انساں
جب ذرا سر کو اٹھایا بیٹھا
ضعف پیری سے بنا نقش قدم
میں وہیں کا ہوا جس جا بیٹھا
صورت باد رہا سر گرداں
خاک کی طرح میں اٹھا بیٹھا
پاؤں پھولے جو ترے کوچے میں
کاٹ کے دست تمنا بیٹھا
بحر ہستی میں حبابوں کی طرح
سیکڑوں بار میں اٹھا بیٹھا
کب سے تیرا فلک شعبدہ باز
دیکھتا ہوں میں تماشا بیٹھا
سامنے کس کے جھکایا سر کو
کس لئے شیخ تو اٹھا بیٹھا
نہ تو نالہ ہے نہ افغاں اے دل
کس لئے چپ ہے اکیلا بیٹھا
خواب سیر چمن عالم ہے
کیا دل زار ہے پھولا بیٹھا
دامن دل پہ لگا داغ جنوں
ملک پر عشق کا سکہ بیٹھا
نقد دل تھا جو بضاعت میں مری
عشق میں اس کو بھی کھو کھا بیٹھا
جو گیا ملک عدم کون گیا
اس کے کوچے میں جو بیٹھا بیٹھا
دل کو ہے جذبۂ الفت شاید
بک رہا ہے جو اکیلا بیٹھا
چل بسے منتہیؔ سب یار ترے
تو یہاں کرتا ہے اب کیا بیٹھا
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |