Jump to content

در مذمت آئینہ دار

From Wikisource
در مذمت آئینہ دار
by میر تقی میر
314918در مذمت آئینہ دارمیر تقی میر

آج سے مجھ کو نہیں رنج و نکال
جب سے نکلے بال تب سے ہے یہ حال
موشگافوں کا نہیں ہے نام اب
مدعی شعر ہیں حجام اب
ان سے کیں اک مو برابر بھی نہیں
جلف اشرافوں کے ہمسر بھی نہیں
پر ہوئے سر چڑھ کے یہ موے دماغ
دود ہو جانے لگے سوے دماغ
ہوگئے گرم سخن تب تو قلم
ورنہ یوں بیہودہ کب نکلا ہے دم
ایسے مونڈے میں نے کتنے بے شعور
ہے حجامت اس بھی فرقے کی ضرور
یاں نہ سید کچھ ہے نے نائی ہے شرط
ہو کسو کسوت میں دانائی ہے شرط
سگ کو نجم الدیں کے سرداری ہوئی
نوح کے بیٹے کی وہ خواری ہوئی
میرؔ و مرزاؔ میں حکم ہو ذی خرد
نے کہ نائی جن پہ سب کا دست رد
سمجھے مرزاؔ میرؔ کو مرزاؔ کو میرؔ
نے وہ رگ زن جو نہ سمجھے سیر شیر
مجھ میں مرزاؔ میں تفاوت ہے بہت
یاں تانی واں عجالت ہے بہت
جس جگہ میں نے رکھی منھ میں زباں
ہوتے اس جاگہ جو مرزاؔ بے گماں
استرے کانوں میں اپنے باندھ کر
کب کے اب تک گھس گئے ہوتے ادھر
ان کمینوں کا گلہ کیا کیجیے
ایسے دس پیدا ہوں گر نہ لیجیے
کہتے ہیں سرگرم بے باکی ہے یہ
ہوں تو ہوں ناپاک کیا پاکی ہے یہ
لکھیے اس فرقے کے اب تاچند ذم
خط بناویں ایسا کریے کف قلم
گرچہ ان کو کہتے ہیں آئینہ دار
لیک ان کا منھ نہ دیکھیں کاش یار
صاف قینچی پر انھیں چڑھوایئے
گر نمدمو اس میں پھر ہوجایئے
چاہو ہو اس قوم کی کیا شرح حال
آگے ہی آویں گے جتنے ہوں گے بال
اک سفید ان کو نہیں چننے کے تک
ہوتے ہیں دشمن یہ کالے بال تک
کیا کہوں کیسے ہیں اوندھے یہ لچر
کیجیے اصلاح عائد ہووے شر
کھرچیں ایسا سر کہ کردیں پائمال
سیدھیاں جب سن لیں تب لیں الٹے بال
معتبر ان کے جو حمامی ہیں اب
ہند میں وہ تیرہ رو شامی ہیں اب
کوئی لے جائے جو حاجت غسل کی
چلو چلو پانی پر دیتے ہیں جی
لعنتیں کرتے ہی گذرے اس کو واں
غسل میں فرصت تشہد کی کہاں
بیٹھے جامہ خانے میں کیا غسل کر
جیب شاگردوں نے واں رکھی کتر
لیک پھر اجرت کے اوپر جنگ ہے
لات ہے گالی ہے پھر سرچنگ ہے
اس سقاوے میں گیا تھا اک حریف
اس کی فی الجملہ طبیعت تھی ظریف
دھوکے پاجامہ نہانے بھی گیا
یک طرف پھر پائے خانے بھی گیا
غسل کے پیچھے جو منھ گھر کو کیا
ہاتھ نائی کے سوا پیسہ دیا
نائی نے پوچھا کہ پیسہ یا ٹکا
دمڑی یہ کیسی ہے میں قرباں گیا
ہنس کے بولا تو نہ بد لے جائیو
یاں ہگا بھی ہے اسے اٹھوائیو
چوہڑے نائی ہیں سارے ایک ذات
ان میں ہے بدذات جو ہو نیک ذات
آیا اک نائی زنانہ سا نظر
ہاتھ میں نلوا لیے بے پا و سر
میں کہا آتا ہے نلوا کام کیا
بولتا ہے آگے سے بدنام کیا
آلت اس میں لوطیوں کی ڈال کر
مونڈتے ہیں جھانٹیں اک اک بال کر
ہاتھ میں رکھیے تو شہوت ہو انھیں
ضبط کی شاید نہ طاقت ہو انھیں
عذر اگرچہ واں تلک بھی یاں نہیں
لیک اک دن اس میں اپنی جاں نہیں
دھکے چڑھ جاویں نہ جانے کیسے کے
جی بھی جاوے واسطے دو پیسے کے
سن کے اس سے ایسی اچرج بات کو
میں کہا لعنت تری اوقات کو
کاٹیے ان کے تئیں مثل گزر
پنڈے کے ہلکے ہیں اکثر پاچہ خر
بعضے بعضے ان میں سے جراح ہیں
بحر خون و ریم کے ملاح ہیں
زرد و زنگاری کوئی ڈبہ ہے ساتھ
حیض کے سے ایک دو لتے ہیں ہاتھ
موم ڈالیں تیل میں مرہم کریں
پھر مسیحائی کا دم اس پر بھریں
پھیر پگڑی بیٹھیں ایسی شان سے
آئے ہیں گویا ابھی ایران سے
باپ سے اپنے اگر پیسے نہ پائیں
داغ کو اس کے جراحت کر دکھائیں
بعضے بعضے ان میں رعنا ہیں اگر
سو مشعلچی ہیں بھگت کے بیش تر
رنڈی گت ناچے یہ اس کا منھ دکھائیں
پا بہ پا مشعل لیے مجلس میں جائیں
روشنی لے دوڑتے ہیں وقت شام
گھورتے ہیں کرکے اندھیارا مدام
تیل کی کپی لیے خوش ہیں کھڑے
ایک بھڑوے ہوتے ہیں چکنے گھڑے
لگ چلیں تو ہیں گے جیسے موچنے
کھائیں جب سر میں لگیں تب سوچنے
چھیڑیو تو مغز بھی لے جائیں گے
سر کے تیں سہلا کے بھیجا کھائیں گے
بے حقیقت ہیں نہیں شایان کار
صحبت ان سے بگڑی ہے پایان کار


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.