در بیان بز
کہتے ہیں جو غم نداری بز بخر
سو ہی لی میں ایک بکری ڈھونڈھ کر
شعر زور طبع سے کہتا ہوں چار
دزدی بزگیری نہیں اپنا شعار
دزد ہے شائستہ خوں ریزی کا یاں
بلکہ بابت ہے بزآویزی کا یاں
میں پڑھوں ہوں اس کے آگے شعر گہ
اپنے ہاں گویا بز اخفش ہے یہ
بکروں کی داڑھی کے تیں جانے ہیں سب
تکہ ریشی بکری کی ہے بوالعجب
رنگ سر سے پاؤں تک اس کا سیاہ
چکنی ایسی جس پہ کم ٹھہرے نگاہ
چار پستاں اس کے آئے دید میں
دو جہاں ہوتے ہیں دو ہیں جید میں
ایک میں ان میں سے تھا مطلق نہ شیر
ایک کو کہتے ہیں اندھے خرد و پیر
اس پہ کالے بکرے دو خیلا جنے
نازنخرے سے رہے پھر انمنے
چارہ بیٹھے کھاتے اک انداز سے
دیتی پٹھ تو ہوتے خوش اس ناز سے
دودھ ہو چوچی میں تو بچہ پیے
بیٹھا دیکھے اس طرف منھ کو کیے
بھوک سے گرم تظلم وے ہوئے
اپنے شایان ترحم وے ہوئے
دودھ منگوایا کیے بازار سے
پھوہوں سے دینا کیا انفار سے
گھاس دانہ بارے کچھ کھانے لگے
گرتے پڑتے پاس بھی آنے لگے
پرورش سے حق کی بارے جی گئے
آب و دانہ دوڑ کر کھا پی گئے
اب جوانی پر جو ہیں وہ شیر مست
کودتے ہیں ہر زماں ہر دم ہیں جست
مستی اپنی ماں پہ کرتے شاد ہیں
عاقبت بکرے ہی کی اولاد ہیں
زور و قوت سے حریفوں کے ہیں ڈھینگ
آہوے جنگی کو دکھلاتے ہیں سینگ
ٹکر ان کی کیا جگر مینڈھا اٹھائے
قوچ سرزن سامنے ہرگز نہ آئے
سرزنی میں شہرۂ آفاق ہیں
لوگ بزگیری کے سب مشتاق ہیں
رنگ کو اس جنگ کا کیا ڈھنگ ہے
دھنستے ہی میداں کا عرصہ تنگ ہے
ہوتے ہی استادہ طاری ہو غشی
کیا بز کوہی سے ہو میداں کشی
تیس ان کی دھاک سن کر مر گیا
غم گوزنوں کو انھوں کا چر گیا
گووہ ٹکر کھا جو ڈکراتا رہا
بزدلی سے گرگ بھی جاتا رہا
مارے پانی پانی کر بکرے اصیل
لکھنؤ سے غل ہے تا بکرے کی جھیل
پاس جانا ان کے اب مسدود ہے
ذبح کرنے کو ہر اک موجود ہے
اس ادا سے جائیں گے چھریوں تلے
کاشکے ہوتے نہ ہاتھوں میں پلے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |