Jump to content

دریاے عشق

From Wikisource
دریاے عشق
by میر تقی میر
314882دریاے عشقمیر تقی میر

عشق ہے تازہ کار و تازہ خیال
ہر جگہ اس کی اک نئی ہے چال
دل میں جاکر کہیں تو درد ہوا
کہیں سینے میں آہ سرد ہوا
کہیں آنکھوں سے خون ہوکے بہا
کہیں سر میں جنون ہو کے رہا
کہیں رونا ہوا ندامت کا
کہیں ہنسنا ہوا جراحت کا
گہ نمک اس کو داغ کا پایا
گہ پتنگا چراغ کا پایا
واں طپیدن ہوا جگر کے بیچ
یاں تبسم ہے زخم تر کے بیچ
کہیں آنسو کی یہ سرایت ہے
کہیں یہ خوں چکاں حکایت ہے
تھا کسی دل میں نالۂ جاں کاہ
ہے کسو لب پہ ناتواں اک آہ
تھا کسو کی پلک کی نم ناکی
ہے کسو خاطروں کی غم ناکی
کہیں باعث ہے دل کی تنگی کا
کہیں موجب شکستہ رنگی کا
کہیں اندوہ جان آگہ تھا
سوزش سینہ ایک جاگہ تھا
کہیں عشاق کی نیاز ہوا
کہیں اندوہ جاں گداز ہوا
ہے کہیں دل جگر کی بے تابی
تھا کسو مضطرب کی بے خوابی
کسو چہرے کا رنگ زرد ہوا
کسو محمل کی رہ کی گرد ہوا
طور پر جا کے شعلہ پیشہ رہا
بے ستوں میں شرار تیشہ رہا
کہیں نے بست کو لگائی آگ
کہیں تیغ و گلو میں رکھی لاگ
کبھو افغان مرغ گلشن تھا
کبھو قمری کا طوق گردن تھا
کسو مسلخ میں جا قنارہ ہوا
کوئی دل ہو کے پارہ پارہ ہوا
ایک عالم میں دردمندی کی
ایک محفل میں جا سپندی کی
ایک دل سے اٹھے ہے ہوکر دود
ایک لب پر سخن ہے خون آلود
اک زمانے میں دل کی خواہش تھا
اک سمیں میں جگر کی کاہش تھا
کہیں بیٹھے ہے جی میں ہوکر چاہ
کہیں رہتا ہے قتل تک ہمراہ
خارخار دل غریباں ہے
انتظار بلانصیباں ہے
کہیں شیون ہے اہل ماتم کا
کہیں نوحہ ہے جان پر غم کا
آرزو تھا امیدواروں کی
دردمندی جگر فگاروں کی
نمک زخم سینہ ریشاں ہے
نگہ یاس مہرکیشاں ہے
حسرت آلود آہ تھا یہ کہیں
شوق کی یک نگاہ تھا یہ کہیں
کشش اس کی ہے ایک اعجوبہ
ڈوبا عاشق تو یار بھی ڈوبا
کوئی محروم وصل یاں سے گیا
کہ نہ یار اس کا پھر جہاں سے گیا
کام میں اپنے عشق پکا ہے
ہاں یہ نیرنگ ساز یکہ ہے
جس کو ہو اس کی التفات نصیب
ہے وہ مہمان چندروزہ غریب
ایسی تقریب ڈھونڈھ لاتا ہے
کہ وہ ناچار جی سے جاتا ہے

آغاز قصۂ جاں گداز

ایک جا اک جوان رعنا تھا
لالہ رخسار و سروبالا تھا
عشق رکھتا تھا اس کی چھاتی گرم
دل وہ رکھتا تھا موم سے بھی نرم
شوق تھا اس کو صورت خوش سے
انس رکھتا تھا وضع دل کش سے
تھا طرح دار آپ بھی لیکن
رہ نہ سکتا تھا اچھی صورت بن
کوئی ترکیب اگر نظر آتی
صورت حال اور ہو جاتی
دیکھتا گر وہ کوئی خوش پرکار
رہتا خمیازہ کش ہی لیل و نہار
زلف ہوتی کسو کی گر برہم
دیکھتے اس کے حال کو درہم
دیکھتا گر کہیں وہ چشم سیاہ
دل سے بے اختیار کرتا آہ
سر میں تھا شور شوق دل میں تھا
عشق ہی اس کے آب و گل میں تھا
الغرض وہ جوان خوش اسلوب
ناشکیبا رہے تھا بے محبوب
ایک دن بے کلی سے گھبرایا
سیر کرنے کو باغ میں آیا
کسو گل پاس وہ صنم ٹھہرا
کہیں سبزے میں ایک دم ٹھہرا
اک خیابان میں سے ہو نکلا
ایک سائے تلے سے رو نکلا
نہ تسلی ہوا دل بے تاب
نہ تھما چشم تر سے خون ناب
دل کی واشد سے بے توقع ہو
ہر شجر کے تلے بہت سا رو
دیکھ گلشن کو ناامیدانہ
منھ کیا ان نے جانب خانہ
دل کے رکنے کا اس کو اک غم تھا
راہ چلنے میں خیال درہم تھا
ناگہ اس کوچہ سے گذار ہوا
آفت تازہ سے دوچار ہوا
ایک غرفے سے ایک مہ پارہ
تھی طرف اس کے گرم نظارہ
پڑ گئی اس پہ اک نظر اس کی
پھر نہ آئی اسے خبر اس کی
تھی نظر یاکہ جی کی آفت تھی
وہ نظر ہی وداع طاقت تھی
ہوش جاتا رہا نگاہ کے ساتھ
صبر رخصت ہوا اک آہ کے ساتھ
بے قراری نے کج ادائی کی
تاب و طاقت نے بے وفائی کی
منھ جو اس کا طرف سے اس کے پھرا
مضطرب ہوکے خاک پر یہ گرا
وہ تو رکھتی نہ تھی خیال اس کا
بے طرح ہووے گوکہ حال اس کا
جھاڑ دامن کے تیں وہ مہ پارہ
اٹھ گئی سامنے سے یک بارہ
وہ گئی اس کے سر بلا آئی
خاک میں مل گئی وہ رعنائی
دل پہ کرنے لگا طپیدن ناز
رنگ چہرے سے کر چلا پرواز
ہاتھ جانے لگا گریباں تک
چاک کے پھیلے پاؤں داماں تک
طبع نے اک جنوں کیا پیدا
اشک نے رنگ خوں کیا پیدا
سوزش دل نے جی میں جاگہ کی
داغ نے آ جگر کو آتش دی
بستر خاک پر گرا وہ زار
درد کا گھر ہوا دل بیمار
خاطر افگار خار خار ہوئی
جاں تمناکش نگار ہوئی
اس کے منھ پر پڑی جو اس کی نگاہ
ناامیدی کے ساتھ ہی سر کی آہ
خو ہوئی نالۂ حزیں کے ساتھ
رابطہ آہ آتشیں کے ساتھ
ہونٹھ سوکھے تو خون ناب ملا
خواب و خور دونوں کو جواب ملا
خلق اس کی ہوئی تماشائی
پر نہ وہ دیکھنے کبھو آئی
کچھ کہا گر کسو نے شفقت سے
رو دیا ان نے ایک حسرت سے
جاکے اس کے قریب در بیٹھا
قصد مرنے کا اپنے کر بیٹھا
دل نہ سمجھا کہ اضطراب کیا
شوق نے کام کو خراب کیا
جوکہ سمجھے تھے اس کو دیوانہ
رحم کرتے تھے آشنایانہ
عاشق اس کو کسو کا جان گئے
سب برا اس ادا کو مان گئے
کیونکہ باہم معاش تھی سب کی
ایک جا بود و باش تھی سب کی
وارث اس کے بھی بدگمان ہوئے
درپئے دشمنی جان ہوئے
مشورت تھی کہ مار ہی ڈالیں
دفعتہً اس بلا کے تیں ٹالیں
پھر یہ ٹھہری کہ ہوں گے ہم بدنام
سن کے آخر کہیں گے خاص و عام
کیا گنہ تھا کہ یہ جواں مارا
کن نے مارا اسے کہاں مارا
ہووے یہ خون خفتہ گر بیدار
کھینچنی ہووے خفت بسیار
کیجیے ایک ڈھب سے اس کو تنگ
تا نہ عائد ہو اپنی جانب ننگ
تہمت خبط رکھیے اس کے سر
کیجیے سنگ سار اس کو پھر
دے کے دیوانہ اس جواں کو قرار
ہوگئے سارے درپئے آزار
ایک نے سخت کہہ کے تنگ کیا
ایک نے آکے زیر سنگ کیا
ایک آیا تو ہاتھ میں شمشیر
ایک بولا کہ اب ہے کیا تاخیر
کی اشارت کہ کودکان شہر
آئے لبریز غصہ و پرقہر
گرچہ ہنگامہ اس کے سر پر تھا
لیک روے دل اس کا اودھر تھا
محو تھا اس کے یہ خیال کے بیچ
تھا گرفتار اپنے حال کے بیچ
ہونٹھ پر حسن کا بیاں اس کا
تھا سر و سنگ آستاں اس کا
ایک دم آہ سرد بھر اٹھنا
نالۂ گرم گاہ کر اٹھنا
جی میں کہتا کہ آہ مشکل ہے
اس طرف یک نگاہ مشکل ہے
دوست کو میرے نام سے ہے ننگ
دشمنوں سے ہے جی پہ عرصہ تنگ
چشم تر سے لہو بہا کرتا
صبح کی باد سے کہا کرتا
کاے نسیم سحر یہ اس سے کہہ
مت تغافل کر اور غافل رہ
ان بلاؤں میں کوئی کیونکے جیے
جان پر آ بنی ہے تیرے لیے
جان دوں تیرے واسطے سو تو
آنکھ اٹھاکر ادھر نہ دیکھے کبھو
رفتہ رفتہ ہوا ہوں سودائی
دور پہنچی ہے میری رسوائی
نام کو بھی ترے نہ جانا آہ
تجھ سے کیونکر سخن کی نکلے راہ
ناامیدانہ گر کروں ہوں نگاہ
دیکھتا ہوں ہزار روز سیاہ
سخت مشکل ہے سخت ہے بیداد
ایک میں خوں گرفتہ سو جلاد
کوئی مشفق نہیں کہ ہووے شفیق
بیکسی بن نہیں ہے کوئی رفیق
نالہ ہوتا ہے گر کبھی دلجو
گریہ آنکھوں سے پونچھتا ہے رو
آہ جو ہمدمی سی کرتی ہے
اب تو وہ بھی کمی سی کرتی ہے
چشم رکھتا ہے وصل کی یہ دل
جی ہے اس سے اسیر آب و گل
ورنہ ترکیب یہ کہاں ہوتی
صورت اک معنی نہاں ہوتی
اب ٹھہرتا نہیں ہے پاے ثبات
ایک میں اور کتنے تصدیعات
سنگ باراں سے سخت ہوں دل تنگ
شیشۂ دل نہیں ہے پارۂ سنگ
محرم یک نگاہ بیش نہیں
کم ہے سینے میں جاکہ ریش نہیں
کیونکے کہیے کہ تو نہیں آگاہ
اک قیامت بپا ہے یاں سر راہ
کچھ چھپا تو نہیں رہا یہ راز
اک جہاں اس سے ہے خبر پرداز
پس تغافل ہوا ترحم کر
گوش دل جانب تظلم کر
کون کہتا ہے رہ نہ محو ناز
پر نہ اتنا کہ جی سے جائے نیاز
ان بلاؤں پہ ان نے صبر کیا
اختیار اپنے جی پہ جبر کیا
اس طرف کا نہ دیکھنا چھوڑا
اس کے اندوہ سے نہ منھ موڑا
اور یہ ماجرا ہوا مشہور
شور رسوائیوں کا پہنچا دور
دیکھ کر اس کو بے خور و بے خواب
جانا ہر اک نے عاشق بے تاب
منھ پر اس کے جو رنگ خون نہیں
عشق ہے اس کو یہ جنون نہیں
ہے نگاہ اس کی جس طرف مائل
اس طرف ہی گیا ہے اس کا دل
جب ہوا ذکر اقل و اکثر میں
چاہ ثابت ہوئی اسے گھر میں
عشق بے پردہ جب فسانہ ہوا
مضطرب کدخداے خانہ ہوا
گھر میں جا بہر دفع رسوائی
بیٹھ کر مشورت یہ ٹھہرائی
یاں سے یہ غیرت مہ تاباں
جا کے چندے کہیں رہے پنہاں
شب محافے میں اس کو کرکے سوار
ساتھ دے ایک دایۂ غدار
پار دریا کے جلد رخصت کی
اس طرح فکر رفع تہمت کی
گھر تھا اک آشنا کا مدنگاہ
واں ہو روپوش تا یہ غیرت ماہ
ہووے جب اس بلا سے خاطر جمع
نورافزاے خانہ ہو جوں شمع
گھر سے باہر محافہ جو نکلا
اس جواں ہی کے پاس ہو نکلا
طپش دل سے ہو کے یہ آگاہ
ہو لیا ساتھ اس کے بھر کر آہ
واں کے رہنے سے اس کو کام نہ تھا
وہ گلی اس کا کچھ مقام نہ تھا
جس سے جی کو کمال ہو الفت
جس سے دل کی درست ہو نسبت
جنبش اس کی پلک کو گرداں ہو
دل میں یاں کاوش نمایاں ہو
واں اگر موشکست کا ہو باب
یاں رگ جاں کو ہووے پیچ و تاب
واں اگر پاؤں میں لگے ہے خار
دل سے یاں سر نکالے ہے یک بار
یار کو درد چشم اگر ہووے
چشم عاشق لہو میں تر ہووے
چاک دامن میں واں پئے زینت
یاں گریباں ہے چاک گل کی صفت
واں دہن تنگ یاں ہے دل تنگی
حسن اور عشق میں ہے یک رنگی
دست افشاں وہ پاے کوباں یہ
تھا محافے کے ساتھ گرم رہ
قطرہ زن اشک سا وہ راہ تمام
درپئے یار تھا وہ بے آرام
ہر قدم تھا زبان پر جاری
خواب ہے یاکہ ہے یہ بیداری
ہمسری اس کی تھی میسر کب
ہے مجھے بخت واژگوں سے عجب
شوق مفرط نے بے تہی کی سخت
نوشکیبی نے دل سے باندھا رخت
رفتہ رفتہ سخن ہوئے نالے
اڑنے لاگے جگر کے پرکالے
اضطراب دلی نے زور کیا
ان نے بے اختیار شور کیا
دل کے غم کو زبان پر لایا
آفت تازہ جان پر لایا
کاے جفا پیشہ و تغافل کیش
اک نظر سے زیاں نہیں کچھ بیش
منھ چھپایا ہے تونے اس پر بھی
نگہ التفات ایدھر بھی
صبر کس کس بلا سے کر گذروں
چارہ اس بن نہیں کہ مر گذروں
منزل وصل دور میں کم پا
تجھ کو اس مرتبے میں استغنا
ہے تو نزدیک دل سے اے طناز
لیک تجھ تک سفر ہے دور دراز
ناز نے یک نفس نہ رخصت دی
آئینے نے تجھے نہ فرصت دی
تو تو واں زلف کو بنایا کی
جان یاں پیچ و تاب کھایا کی
تجھ کو تھی اپنے خال رخ پہ نگاہ
دل مرا مبتلاے داغ سیاہ
تجھ کو مدنظر تھی اپنی چال
میں ستم کش ہوا کیا پامال
بستر خواب پر تجھے آرام
مجھ کو خمیازہ کھینچنے سے کام
واں لب لعل تیرے خنداں تھے
یاں فشردہ جگر پہ دنداں تھے
ناز و خوبی نے دل دیا نہ تجھے
رحم سے آشنا کیا نہ تجھے
اب تغافل نہ کر تلطف کر
حال پر میرے ٹک تاسف کر
گوش زد دایہ کے ہوئے یہ سخن
تھی وہ استاد کار حیلہ و فن
پاس اس کو بلا تسلی کی
وعدۂ وصل سے تشفی کی
کاے ستم دیدۂ غم دوری
ہوچکا اب زمان مہجوری
زار نالی نہ کر شکیبا ہو
عشق کا راز تا نہ رسوا ہو
دل قوی رکھ نہ جی کو کاہش دے
چل کوئی دم کو داد خواہش دے
سخت دل تنگ تھی یہ غیرت ماہ
قطع تجھ بن نہ ہوسکی تھی راہ
گرچہ یہ حسن اتفاق سے ہے
اس کی بھی جذب اشتیاق سے ہے
تیرے آنے سے دل کشادہ ہوا
نشۂ دوستی زیادہ ہوا
بزم عشرت کریں گے باہم ساز
ہوجو اب اپنے دوست کا دم ساز
دے کر اس کو فریب ساتھ لیا
دل عاشق کو اپنے ہاتھ لیا
لیک در پردہ ان نے یہ ٹھانی
کیجیے اس سے خصمی جانی
یہ تو دل تفتۂ محبت تھا
سخت وارفتۂ محبت تھا
وقت نزدیک تھا جو آپہنچا
تا سر آب پا بہ پا پہنچا
آب کیسا کہ بحر تھا ذخار
تند و مواج و تیرہ و تہ دار
موج کا ہر کنایہ طوفاں پر
مارے چشمک حباب عماں پر
ہم کنار بلا ہر اک گرداب
لجہ سرمایہ بخش تیرہ سحاب
گذر موج جب نہ تب دیکھا
ساحل اس کا نہ خشک لب دیکھا
کشتی اک آن کر ہوئی موجود
ہو فلک سے ہلال جیسے نمود
کی کنارے پہ لاکے استادہ
تھا محافہ رکوب آمادہ
اس سفینے میں جلد جا پہنچا
یہ بھی واں ساتھ ہی لگا پہنچا
بیچ دریا میں دایہ نے جاکر
کفش اس گل کی اس کو دکھلاکر
پھینکی پانی کی سطح پر اک بار
اور بولی کہ او جگرافگار
حیف تیرے نگار کی پاپوش
موج دریا سے ہووے ہم آغوش
غیرت عشق ہے تو لا اس کو
چھوڑ مت یوں برہنہ پا اس کو
اس طرف اس کے تیں اترنا ہے
اس نواحی کی سیر کرنا ہے
پاؤں اس کے جو ہیں نگار آلود
ظلم ہے ہوویں گر غبارآلود
جس کف پا کو رنگ گل ہو بار
منصفی ہے کہ خار سے ہو فگار
ان پہ نرمی میں گل سے ہوں جو پرے
آبلہ چشم کو سیاہ کرے
یہ روا ہے تو اپنے حال پہ رو
مفت ناموس عشق کو مت کھو
جی اگر تھا عزیز اے ناکام
کیوں عبث عشق کو کیا بدنام
سن کے یہ حرف دایۂ مکار
دل سے اس کے گیا شکیب و قرار
بے خبر کار عشق کی تہ سے
جست کی ان نے اپنی جاگہ سے
تھا سفینے میں یا کہ دریا میں
موج زنجیر ہوگئی پا میں
کھنچ گیا قعر کو یہ گوہر ناب
تھی کشش عشق کی مگر تہ آب
کہتے ہیں ڈوبتے اچھلتے ہیں
لیکن ایسے کوئی نکلتے ہیں
ڈوبے جو یوں کہیں وہ جا نکلے
غرق دریاے عشق کیا نکلے
عشق نے آہ کھو دیا اس کو
آخر آخر ڈبو دیا اس کو
جب کہ دریا میں ڈوب کر وہ جواں
کھو گیا گوہر گرامی جاں
دایۂ حیلہ گر ہوئی دل شاد
واں سے کشتی چلی بہ رنگ باد
خارخار دلی سے فارغ ہو
لے گئی پار اس گل نو کو
یہ نہ سمجھی کہ عشق آفت ہے
فتنہ سازی میں اک قیامت ہے
خاک ہو کیوں نہ عاشق بے دل
کام سے اپنے یہ نہیں غافل
وصل جیتے نہ ہو میسر اگر
لادے معشوق کو یہ تربت پر
یاں سے عاشق اگر گئے ناشاد
خاک خوباں بھی ان نے دی برباد
قصہ کوتاہ بعد یک ہفتہ
آئی وہ رشک مہ زخود رفتہ
کہنے لاگی کہ اب تو اے دایہ
ہوگیا غرق وہ فرومایہ
اب تو وہ ننگ درمیاں سے گیا
آرزومند اس جہاں سے گیا
تھے جو ہنگامے اس کے حد سے زیاد
ساتھ اس کے گئے وہ شور و فساد
شور فتنے تھے اس تلک سارے
اب تو بدنامیاں نہیں بارے
دل تڑپتا ہے متصل میرا
مرغ بسمل ہے یاکہ دل میرا
وحشت طبع اب تو افزوں ہے
حال جی کا مرے دگرگوں ہے
بے دماغی کمال ہوتی ہے
جان تن کے وبال ہوتی ہے
دل کوئی دم میں خون ہووے گا
آج کل میں جنون ہووے گا
بے کلی جی کو تاب دیتی ہے
طاقت دل جواب دیتی ہے
جی میں آتا ہے ہوں بیابانی
پر کہوں ہوں کہ ہے یہ نادانی
مصلحت ہے کہ مجھ کو لے چل گھر
ایک دو دم رہیں گے دریا پر
گاہ باشد کہ دل مرا وا ہو
ورنہ کیا جانیے کہ پھر کیا ہو
دایہ بولی کہ اے سراپا ناز
حسن کا در پہ تیرے روے نیاز
اب تو میں فتنے کو سلایا ہے
اس بلا کے تئیں بٹھایا ہے
کون مانع ہے گھر کے چلنے کا
سد رہ کون ہے نکلنے کا
ہو محافے میں دل خوشی سے سوار
شاد شاداں کر آب سے تو گذار
دل سے اپنے پدر کے غم کم کر
مادر مہرباں کو خرم کر
کر ملاقات ہمدموں سے تو
گرم بازی ہو محرموں سے تو
یہ نہ سوچی کہ بدبلا ہے عشق
گھات میں اپنی لگ رہا ہے عشق
جس کسو سے یہ پیار رکھتا ہے
عاقبت اس کو مار رکھتا ہے
جذب سے اپنے جب کرے ہے کام
عاشق مردہ سے بھی لے ہے کام
صبح گاہاں وہ غیرت خورشید
اس جگہ سے رواں ہوئی نومید
پہنچی نصف النہار دریا پر
روئی بے اختیار دریا پر
حد سے افزوں جو بے قرار ہوئی
دایہ کشتی میں لے سوار ہوئی
حرف زن یوں ہوئی کہ اے دایہ
یاں گرا تھا کہاں وہ کم مایہ
موج سے تھا کدھر کو ہم آغوش
تھا تلاطم سے کس طرف ہم دوش
تجھ کو آیا نظر کہاں آکر
پھر جو ڈوبا تو کس جگہ جاکر
مجھ کو دیجو نشان اس جا کا
میں بھی دیکھوں خروش دریا کا
ہوں میں ناآشناے سیر آب
ناشناساے موجہ و گرداب
لجہ کیا لطمہ کس کو کہتے ہیں
گھر میں ہم نام سنتے رہتے ہیں
ہیں میسر کہاں یہ سیر عبور
اتفاقی ہیں اس طرح کے امور
مکر میں گرچہ دایہ تھی کامل
لیک تہ سے سخن کے تھی غافل
یہ نہ سمجھی کہ ہے فریب عشق
ہے یہ مہ پارہ ناشکیب عشق
بیچ دریا کے جا کہا یہ حرف
یاں ہوا تھا وہ ماجراے شگرف
یاں وہ بیٹھا حباب کے مانند
پھر نہ تھا کچھ سراب کے مانند
سنتے ہی یہ کہاں کہاں کر کر
گر پڑی قصد ترک جاں کر کر
موج ہر اک کمند شوق تھی آہ
لپٹی اس کو بہ رنگ مار سیاہ
دام گستر دہ عشق تھا تہ آب
جس کے حلقے تمام تھے گرداب
حسن موجوں میں یوں نظر آوے
نور مہتاب جیسے لہراوے
تھیں وہ اس کی حنائی انگشتاں
غیرت افزاے پنجۂ مرجاں
سر پہ جس دم کہ آب ہو کے بہا
سطح پانی کا آئینہ سا رہا
کشش عشق آخر اس مہ کو
لے گئی کھینچتی ہوئی تہ کو
کودے غواص و آشنا سارے
تابہ مقدور دست و پا مارے
کھینچ کر کوفت سب ہوئے بیتاب
نہ لگا ہاتھ وہ در نایاب
جا ہم آغوش مردہ یار ہوئی
تہ میں دریا کے ہم کنار ہوئی
پاک کی زندگی کی آلائش
ہو کے دست و بغل کی آسائش
سر پٹکتی جو گھر گئی دایہ
آفت اک لے گئی نئی دایہ
اب و عم مادر و برادر سب
خاک افشان و آہ و نالہ بہ لب
دار و دستہ تمام اس گل کا
ترک آئین کر تحمل کا
سوے دریا رواں ہوئے گریاں
آتش غم سے دل جگر بریاں
خلق یک جا ہوئی کنارے پر
حشر برپا ہوئی کنارے پر
دام داروں سے سب نے کام لیا
آخر ان کو اسیر دام کیا
نکلے باہم ولے موئے نکلے
دونوں دست و بغل ہوئے نکلے
ربط چسپاں بہم ہویدا تھا
مر گئے پر بھی شوق پیدا تھا
ایک کا ہاتھ ایک کی بالیں
ایک کے لب سے ایک کو تسکیں
جو نظر ان کو آن کرتے تھے
ایک قالب گمان کرتے تھے
کیا لکھوں مل رہے وہ وصلی وار
ہم دگر سے جدا ہوئے دشوار
کیوں نہ دشوار ہووے ان کا فصل
جان دے دے ہوا ہو جن کا وصل
حیرت کار عشق سے مردم
شکل تصویر آپ میں تھے گم

مقولۂ شاعر

میرؔ اب شاعری کو کر موقوف
عشق ہے ایک فتنۂ معروف
قدرت اپنی جہاں دکھاتا ہے
اس سے جو تو کہے سو آتا ہے
کتنی وسعت ترے بیاں میں ہے
کتنی طاقت تری زباں میں ہے
لب پہ اب مہر خامشی بہتر
یاں سخن کی فرامشی بہتر


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.