درہجو خواجہ سراے
ایک جو خوجے سے ملا اک حکیم
دونوں وے آپس میں ہوئے ہم کلام
خوجے نے یوں اس سے کہا تجھ سے ہی
مردے حکیموں کا ہوا زندہ نام
کتنے دنوں سے ہے مجھے درد سر
اس کی میں پامالی میں ہوں صبح و شام
نیند نہیں رات کو نے دن کو چین
خواب و خورش مجھ پہ ہوئی ہے حرام
تیری توجہ ہے ضروری ادھر
کیوں کہ یہ ناکام کا ہے اتنا کام
کہنے لگا سن کے وہ حاذق طبیب
مجھ کو یہی کام رہے ہے مدام
تیرے تملق کی نہیں احتیاج
اور نہ دے درد سر اے تلخ کام
نسخہ میں پاشوئے کا لکھ دوں تجھے
کر تو اسے جا کے اذیت تمام
سن کے تعجب سے کہا خوجے نے
پختہ تجھے جانا تھا نکلا تو خام
کچھ بھی ہے سر پاؤں تری بات کا
چپ نہ ہنسیں سن کے کہیں خاص و عام
پاؤں کہاں سر کہاں ناداں کہ ہیں
تجھ سے تو دانا بہ مراتب عوام
سخت تر آشفتہ ہو بولا طبیب
خوجوں میں ہوتا نہیں ہوش ایک دام
نقل ہے اک یاد چنانچہ مجھے
رات کو خوجے کو ہوا احتلام
آلت جنبش تو منی کی نہ تھی
بہہ کے گئی اس کی دبر پر تمام
اس کو کہا زعم نے لوطی کوئی
دے گیا تکلیف ہی یہ لاکلام
صبح کو اٹھ قینچی کھڑی گھر میں کی
کیا کہوں میں کیسی ہوئی دھوم دھام
ٹھہرے امین آکے کئی معتبر
ایک حویلی میں ہوا ازدحام
بانس تلک ٹوٹ چکے نفروں پر
پوچھ چکے لوگوں کا لے لے کے نام
نسبت پا سر سے ہے کیا پوچھ مت
اپنی طرف دیکھ تو ٹک تیرہ فام
خوجے کے اپنے ہی سے کرلے قیاس
ریش کجا خایہ کجا اے غلام
سمجھے نہ سمجھے تو مرے خائے سے
میں تو نظیر اس کی کہی والسلام
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |