Jump to content

درویش ہوں جو گنج میسر نہیں تو کیا

From Wikisource
درویش ہوں جو گنج میسر نہیں تو کیا
by کیفی کاکوروی
323478درویش ہوں جو گنج میسر نہیں تو کیاکیفی کاکوروی

درویش ہوں جو گنج میسر نہیں تو کیا
دل سے غنی ہوں پاس مرے زر نہیں تو کیا

لاکھوں صدائے صور ہیں پازیب یار میں
چھم چھم کا شور فتنۂ محشر نہیں تو کیا

سیلاب اشک موجۂ طوفان نوح ہے
آنکھوں میں بند سات سمندر نہیں تو کیا

رنگ حنا سے ہاتھ بتوں کے ہیں لال لال
پھر یہ ہمارے خون کا محضر نہیں تو کیا

لاکھوں ہیں معجزے لب جاں بخش یار میں
رشک مسیح ہیں وہ پیمبر نہیں تو کیا

سر خوش ہیں ہم خیال میں اک چشم مست کے
ساقی ہمارے دور میں ساغر نہیں تو کیا

موزوں کلام پاک بیان خوش خیال ہے
کیفیؔ سخن شناس سخنور نہیں تو کیا


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.