Jump to content

درد وہ تو نے دیا جس کا مداوا نہ ہوا

From Wikisource
درد وہ تو نے دیا جس کا مداوا نہ ہوا (1930)
by نشتر چھپروی
324067درد وہ تو نے دیا جس کا مداوا نہ ہوا1930نشتر چھپروی

درد وہ تو نے دیا جس کا مداوا نہ ہوا
تیرا بیمار مسیحا سے بھی اچھا نہ ہوا

آپ ہی کہئے کہ یہ غمزۂ بیجا نہ ہوا
مجھ سے پردہ ہوا اور غیر سے پردا نہ ہوا

بے مروت نہ سہی آپ مگر یہ کیا ہے
مجھ سے پردہ ہوا اور غیر سے پردا نہ ہوا

آپ کی شرم بھی دنیا سے نرالی نکلی
مجھ سے پردہ ہوا اور غیر سے پردا نہ ہوا

تو تڑپ اپنی دکھانے تو چلا ہے اے دل
اور وہ شوخ اگر محو تماشا نہ ہوا

دیکھتے ہی مجھے برسانا یہ پتھر کیسا
تیرا عاشق نہ ہوا میں کوئی دیوانہ ہوا

وہ شب وصل بھی آئے تو چڑھائے تیور
بخت برگشتہ مرا آج بھی سیدھا نہ ہوا

میرے حصے کا نہ ساقی نے بھرا جام اب تک
اور لبریز یہاں عمر کا پیمانہ ہوا

حور ہو اس بت رعنا کے مقابل توبہ
واعظو تم کو عطا دیدۂ بینا نہ ہوا

ہنس پڑا چپکے سے وہ غنچہ دہن کچھ کہہ کر
ایسا یہ وصل کا وعدہ ہوا گویا نہ ہوا

حیف صد حیف کہ رحم آ ہی گیا قاتل کو
نہ ہوا شوق شہادت مرا پورا نہ ہوا

ہاتھ آیا نہ کبھی وہ گل نخل خوبی
کبھی سرسبز مرا باغ تمنا نہ ہوا

قابل ذکر تھی کس دن نہ مری رسوائی
یار کی بزم میں کس دن مرا چرچا نہ ہوا

بخت چمکا نہ کبھی میرے سیہ خانے کا
میرا مہمان کبھی وہ بت رعنا نہ ہوا

آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا مرے لاشے کی طرف
اس ستم گر سے اتنا بھی تو دیکھا نہ ہوا

چشم ساقی کا تصور ہوا رہبر میرا
جب روانہ کبھی میں جانب مے خانہ ہوا

سخت جانی نے مری مجھ کو کیا کیا نادم
حوصلہ یار کی تلوار کا پورا نہ ہوا

لاکھ مارا کیا سر خنجر قاتل نشترؔ
سخت جانی کا مری بال بھی بیکا نہ ہوا


This anonymous or pseudonymous work is in the public domain in the United States because it was in the public domain in its home country or area as of 1 January 1996, and was never published in the US prior to that date. It is also in the public domain in other countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 80 years or less since publication.