دامن ہے میرا دشت کا دامان دوسرا
Appearance
دامن ہے میرا دشت کا دامان دوسرا
میری طرح نہ پھاڑے گریبان دوسرا
یک رنگ ہوں میں اس گل رعنا کے عشق میں
بلبل نہ ہوں کہ ڈھونڈوں گلستان دوسرا
تھا ہی غم فراق ملا اس میں درد رشک
مفلس کے گھر میں آیا یہ مہمان دوسرا
تیری حیائے چشم سا دیکھا نہیں رقیب
یاں احتیاج کیا ہے نگہبان دوسرا
عریاں تنوں کے سر پہ تری خاک کور رہے
در کارواں نہیں سر و سامان دوسرا
کیجے ضمیر خاک کو آدم کی چھان اگر
اس شکل کا بن آوے نہ انسان دوسرا
جوع البقر رکھے یہ شیخ شکم پرست
اک خوان کھا کہے ہے کہاں خوان دوسرا
سیر عجب رکھے ہے تری جلوہ گاہ ناز
اس لطف کا کہاں ہے خیابان دوسرا
نقد دل اس کو دینا ہے حسرتؔ ثواب و فرض
اس زلف سا نہ ہوگا پریشان دوسرا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |