داغ بیعانہ حسن کا نہ ہوا
داغ بیعانہ حسن کا نہ ہوا
کھوٹے داموں معاملہ نہ ہوا
دل مکدر رہا صفا نہ ہوا
فیض آئینہ روؤں کا نہ ہوا
کچھ نہ کام آئے داغ کی بوٹی
قلب تانبا رہا تلا نہ ہوا
درد مندان خال کہتے ہیں
گولیاں کھائیں فائدہ نہ ہوا
دل خیالوں سے پائمال رہا
سبزۂ رہ گزر ہرا نہ ہوا
آئے فصل چمن کہ عید آئے
غنچے چٹکے کہ شادیانہ ہوا
ہر کسی زلف میں رہا الجھا
دام الفت سے دل رہا نہ ہوا
نہ کھٹکتے کسی کے آنکھوں میں
یہ غبار اپنا توتیا نہ ہوا
میرے آگے وہ بیٹھے غیر کے پاس
پاس میرا انہیں ذرا نہ ہوا
دل نے ایسے اٹھائے رنج و تعب
پھر محبت کا حوصلہ نہ ہوا
جب کسی کی نظر پڑے رخ پر
خال مشکیں سیاہ دانہ ہوا
دیکھی کیفیت بہار و خزاں
میں دو رنگی سے آشنا نہ ہوا
دل شگفتہ ہوا نہ پھولوں سے
کوئی کانٹا گرہ کشا نہ ہوا
گھر بنا کر یہاں یہ تنگ آیا
عقدۂ خاطر آشیانہ ہوا
رشک کا ہے مآل بے رنگی
سبزہ پس کر کبھی حنا نہ ہوا
بحرؔ دل سوچ کر اسے دینا
خود غرض آشنا ہوا نہ ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |