داد ملتی نظر اہل نظر سے پہلے
Appearance
داد ملتی نظر اہل نظر سے پہلے
موت آتی جو کہیں دل کو جگر سے پہلے
تصفیہ کرتے نہ ہنگام سحر سے پہلے
پوچھ لیتے کسی مایوس نظر سے پہلے
میرا مرنا تمہیں ہو جائے گا خود ہی معلوم
دل تڑپ اٹھے گا سینے میں خبر سے پہلے
تم تو کہتے تھے کہ میں درد کا قائل ہی نہیں
کون چیخا مرے نالوں کے اثر سے پہلے
نام جس چیز کا ہے موت جہاں میں مشہور
واقعہ یہ تو ہوا درد جگر سے پہلے
آج کی رات تو کچھ اور خبر دیتی ہے
ہو مناسب تو چلے آنا سحر سے پہلے
ایک بجلی سی مری آنکھوں کے اندر کوندی
اور ارادہ جو ہوا عزم سفر سے پہلے
روئی مجبوریوں پر چارہ گروں کی قسمت
مر گیا آپ کا بیمار سحر سے پہلے
میں بھی سمجھا ہوں ترے نقش قدم کا مطلب
میں بھی گزرا تھا اسی راہ گزر سے پہلے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |