خودکشی کا اقدام
اقبال کے خلاف یہ الزام تھا کہ اس نے اپنی جان کو اپنے ہاتھوں ہلاک کرنے کی کوشش کی، گو وہ اس میں ناکام رہا۔ جب وہ عدالت میں پہلی مرتبہ پیش کیا گیا تو اس کا چہرہ ہلدی کی طرح زرد تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ موت سے مڈبھیڑ ہوتے وقت اس کی رگوں میں تمام خون خشک ہو کر رہ گیا ہے جس کی وجہ سے اس کی تمام طاقت سلب ہوگئی ہے۔
اقبال کی عمر بیس بائیس برس کے قریب ہوگی مگر مرجھائے ہوئے چہرے پر کھنڈی ہوئی زردی نے اس کی عمر میں دس سال کااضافہ کر دیا تھا اور جب وہ اپنی کمر کے پیچھے ہاتھ رکھتا تو ایسا معلوم ہوتا کہ وہ واقعی بوڑھا ہے۔ سنا گیا ہے کہ جب شباب کے ایوان میں غربت داخل ہوتی ہے تو تازگی بھاگ جایا کرتی ہے۔ اس کے پھٹے پرانے اور میلے کچیلے کپڑوں سے یہ عیاں تھا کہ وہ غربت کا شکار ہے اور غالباً حد سے بڑھی ہوئی مفلسی ہی نے اسے اپنی پیاری جان کو ہلاک کرنے پر مجبور کیا تھا۔
اس کا قد کافی لمبا تھا جو کاندھوں پر ذرا آگے کی طرف جھکا ہوا تھا۔ اس جھکاؤ میں اس کے وزنی سر کو بھی دخل تھا جس پر سخت اور موٹے بال، جیل خانے کے سیاہ اور کھر درے کمبل کا نمونہ پیش کررہے تھے۔ آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئی تھیں جو بہت گہری اور اتھاہ معلوم ہوتی تھیں۔ جھکی ہوئی نگاہوں سے یہ پتا چلتا تھا کہ وہ عدالت کے سنگین فرش کی موجودگی کو غیر یقینی سمجھ رہا ہے اور یہ ماننے سے انکار کر رہا ہے کہ وہ زندہ ہے۔ ناک پتلی اور تیکھی ، اس کے ماتھے پر تھوڑا سا چکنا میل جما ہوا تھا جس کو دیکھ کر زنگ آلود تلوار کا تصور آنکھوں میں پھر جاتا تھا۔ پتلے پتلے ہونٹ جو کناروں پر ایک لکیر بن کر رہ گئے تھے، آپس میں سلے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ شاید اس نے ان کو اس لیے بھینچ رکھا تھا کہ وہ اپنے سینے کی آگ اور دھوئیں کو باہر نکالنا نہیں چاہتا تھا۔
میلے پائجامے میں اس کی سوکھی ہوئی ٹانگیں اوپر کے دھڑکے ساتھ اس طرح جڑی ہوئی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا دو خشک لکڑیاں تنور کے منہ میں ٹھنسی ہوئی ہیں۔ سینہ چوڑا چکلا تھا مگر ہڈیوں کے ڈھانچے پر، جس کی پسلیاں پھٹے ہوئے گریبان میں سے جھانک رہی تھیں، گوشت سانولے رنگ کی جھلی معلوم ہوتا تھا ،سانس کی آمد و شد سے یہ جھلی بار بار پھولتی اور دبتی تھی۔
پیروں میں کپڑے کا جاپانی جوتا تھا جو جگہ جگہ سے بے حد میلا ہورہا تھا۔ دونوں جوتے انگوٹھوں کے مقام پر سے پھٹے ہوئے تھے۔ ان سوراخوں میں سے اس کے انگوٹھوں کے بڑھے ہوئے ناخن نمایاں طور پر نظر آرہے تھے ۔وہ کوٹ پہنے ہوئے تھا جو اس کے بدن پر بہت ڈھیلا تھا، اس میلے اور سال خوردہ کوٹ کی خالی پھٹی ہوئی جیبیں بے جان مردوں کی طرح منہ کھولے ہوئے تھیں۔
وہ کٹہرے کے ڈنڈے پر ہاتھ رکھے اور سر جھکائے جج کے سامنے بالکل خاموش اور بے حس و حرکت کھڑا تھا۔
’’تم نے ۲۰ جون کو ہفتے کے دن مانا نوالہ اسٹیشن کے قریب ریل کی پٹری پر لیٹ کر اپنی جان ہلاک کرنے کی کوشش کی اور اس طرح ایک شدید جرم کے مرتکب ہوئے۔‘‘ جج نے ضمنی کاغذات پڑھتے ہوئے کہا، ٗ’’بتاؤ، یہ جرم جو تم پر عائد کیا گیا ہے کہاں تک درست ہے؟‘‘
’’جرم!‘‘ اقبال اپنے گہرے خواب سے گویا چونک سا پڑا لیکن فوراً ہی اس کا وزنی سر جو ایک لمحے کے لیے اٹھا تھا، پھر بیل کی پتلی ٹہنی کے بوجھل پھل کی طرح لٹک گیا۔
’’بتاؤ،یہ جرم جو تم پر عائد کیا گیا ہے کہاں تک درست ہے؟‘‘ جج نے سکول کے استاد کی طرح وہی سوال دہرایا جو وہ اس سے پہلے ہزار ہا لوگوں سے پوچھ چکا تھا۔ اقبال نے اپنا سر اٹھایا اور جج کی طرف اپنی بے حس آنکھوں سے دیکھنا شروع کر دیا، پھر تھوڑی دیر کے بعد دھیمے لہجے میں کہا، ’’میں نے آج تک کسی جرم کا ارتکاب نہیں کیا۔‘‘
عدالت کے کمرے میں کامل سکوت طاری تھا ،شاید اس کا باعث اقبال کا دشت نما سراپا تھا جس میں بلا کی ہیبت تھی ، جج اس کی نگاہوں کے خوف ناک خلا سے خوف کھا رہا تھا۔ کورٹ انسپکٹر نے، جو جنگلے سے باہر بلند کرسی پر بیٹھا تھا، کمرے کے سکوت کے دہشت ناک اثر کو دور کرنے کے لیے یوں ہی دو تین مرتبہ اپنا گلا صاف کیا۔ ریڈر نے، جو پلیٹ فارم پر بچھے ہوئے تخت پر، جج کے قریب بیٹھا تھا، مثلوں کے کاغذات ادھر ادھر رکھتے ہوئے اپنی پریشانی اور ڈر دور کرنے کی سعی کی۔
جج نے ریڈر کی طرف معنی خیز نظروں سے دیکھا اور ریڈر نے کورٹ انسپکٹر کی طرف اور کورٹ انسپکٹر جواب میں اپنا حلق صاف کرنے کے لیے دو مرتبہ کھانسا۔ جب کمرے کا خوف آمیز سکوت ٹوٹا تو جج نے میز پر کہنیاں ٹکا کر سامنے پڑے ہوئے قلم دان کے ایک خانے میں سے لوہے کی چمکتی ہوئی پن نکال کر اپنے دانتوں کی ریخ میں گاڑتے ہوئے اقبال سے کہا، ’’کیا تم نے خودکشی کا اقدام کیا تھا؟‘‘
’’جی ہاں!‘‘ یہ جواب اقبال نے ایسے لہجے میں دیا کہ اس کی آواز ایک لرزاں سرگوشی معلوم ہوئی۔ جج نے فوراً ہی کہا، ’’تو پھر اپنے جرم کا اقبال کرتے ہو؟‘‘
’’جرم!‘‘ وہ پھر چونک پڑا اور تیز لہجے میں بولا، ’’آپ کس جرم کا ذکر کررہے ہیں؟ اگر کوئی خدا ہے تو وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ میں ہمیشہ اس سے پاک رہا ہوں۔‘‘
جج نے اپنے لبوں پر زور دے کر ایک بیمار مسکراہٹ پیدا کی، ’’تم نے خودکشی کا اقدام کیا اور یہ جرم ہے۔ اپنی یا کسی غیر کی جان لینے میں کوئی فر ق نہیں۔ ہر صورت میں وار انسان پر ہوتا ہے۔‘‘
اقبال نے جواب دیا، ’’اس جرم کی سزا کیا ہے؟ یہ کہتے ہوئے اس کے پتلے ہونٹوں پر ایک طنزیہ تبسم ناچ رہا تھا اور ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سان پر چاقو کی دھار تیز کرتے وقت چنگاریوں کی پھوار گر رہی ہے۔ جج نے جلدی سے کہا، ’’ایک، دو یا تین ماہ کی قید۔۔۔‘‘
اقبال نے یہی لفظ تول تول کر دہرائے، گویا وہ اپنے پستول کے میگزین کی تمام گولیوں کو بڑے اطمینان سے ایک نشانے پر خالی کرنا چاہتا ہے، ’’ایک دو یا تین ماہ کی قید۔۔۔!‘‘ یہ لفظ دہرانے کے بعد وہ ایک لمحہ خاموش رہنے کے بعد تیز و تند لہجے میں بولا، ’’آپ کاقانون صریحاً موت کو طویل بنانا چاہتا ہے، ایک آدمی جو چند لمحات کے اندر اپنی دکھ بھری زندگی کو موت کے سکون میں تبدیل کرسکتا ہے آپ اسے مجبور کرتے ہیں وہ کچھ عرصے تک اور دکھ کے تلخ جام پیتا رہے۔ جو آسمان سے گرتا ہے آپ اسے کھجور پر لٹکا دیتے ہیں، آگ سے نکال کر کڑاہی میں ڈالنا چاہتے ہیں۔ کیا قانون اسی ستم ظریفی کا نام ہے؟‘‘
جج نے بارعب لہجے میں جواب دیا، ’’عدالت ان فضول سوالات کا جواب نہیں دے سکتی۔ ‘‘
’’عدالت ان فضول سوالات کا جواب نہیں دے سکتی، تو بتائیے وہ کن متین اور سنجیدہ سوالوں کا جواب دے سکتی ہے؟‘‘ اقبال کے ماتھے پر پسینے کے سرد قطرے لرزنے لگے، ’’کیا عدالت بتا سکتی ہے کہ عدالت کے معنی کیا ہیں؟ کیا عدالت بتا سکتی ہے کے ججوں اور مسجد کے ملاؤں میں کیا فرق ہے جو مرنے والوں کے سرہانے رٹی ہوئی سورۂ یٰسین کی تلاوت کرتے ہیں؟ کیا عدالت بتا سکتی ہے کہ اس کے قوانین اور مٹی کے کھلونوں میں کیا فرق ہے۔۔۔؟ عدالت اگر ان فضول سوالوں کا جواب نہیں دے سکتی تو اس سے کہیے کہ وہ ان معقول سوالوں کا جواب دے؟‘‘
جج کے تیوروں پر خفگی کے آثار نمودار ہوئے اور اس نے تیزی سے کہا، ’’اس قسم کی بے باکانہ گفتگو عدالت کی توہین ہے جو ایک سنگین جرم ہے۔‘‘
اقبال نے کہا،’’تو گفتگو کا کوئی ایسا انداز بتائیے جس سے آپ کی نیک چلن عدالت کی توہین نہ ہو۔‘‘
جج نے جھلا کر جواب دیا، ’’جو سوال تم سے کیا جائے صرف اسی کا جواب دو ، عدالت تمہاری تقریر سننا نہیں چاہتی۔‘‘
’’پوچھیے! آپ مجھ سے کیا پوچھنا چاہتے ہیں؟‘‘ اقبال کے چہرے پر یاس کی دھند چھارہی تھی اور اس کی آواز اس گجر کی ڈوبتی ہوئی گونج معلوم ہوتی تھی جو رات کی تاریکیوں میں لوگوں کو وقت سے باخبر رکھتا ہے۔ یہ سوال کچھ اس انداز سے کیا گیا تھا کہ جج کے چہرے پر گھبراہٹ سی پیدا ہو گئی اور اس نے ایسے ہی میز پر سے کاغذات اٹھائے اور پھر وہیں کے وہیں رکھ دئیے اور دانت کی ریخ میں سے پن نکال کر ،پن کشن میں گاڑتے ہوئے کہا، ’’تم نے اپنی جان لینے کی کوشش کی اس لیے تم ازروئے قانون مستو جب سزا ہو۔ کیا اپنی صفائی میں تم کوئی بیان دینا چاہتے ہو؟‘‘
اقبال کے بے جان اور نیلے ہونٹ فرط حیرت سے کھلے کے کھلے رہ گئے۔ اس نے کہا، ’’بیان! آپ کس قسم کا بیان لینا چاہتے ہیں؟ کیا میں سراپا بیان نہیں ہوں۔۔۔؟ کیا میرے گالوں کی ابھری ہوئی ہڈیا ں یہ بیان نہیں دے رہیں کہ غربت کی دیمک میرے گوشت کو چاٹتی رہی ہے۔۔۔؟ کیا میری بے نور آنکھیں یہ بیان نہیں دے رہیں کہ میری زندگی کی بیشتر راتیں لکڑی اور تیل کے دھوئیں کے اندر گزری ہیں؟ کیا میرا سوکھا ہوا جسم یہ بیان نہیں دے رہا کہ اس نے کڑے سے کڑا دکھ برداشت کیا ہے۔۔۔؟کیا میری زرد بے جان اور کانپتی ہوئی انگلیاں یہ بیان نہیں دے رہیں کہ وہ ساز حیات کے تاروں میں امید افزا نغمہ پیدا کرنے میں ناکام رہی ہیں۔۔۔؟ بیان۔۔۔! بیان۔۔۔!صفائی کا بیان۔۔۔!کس صفائی کا بیان۔۔۔؟ میں اپنے ہاتھوں سے اپنی زندگی کا خاتمہ کر رہا تھا اس لیے کہ مجھے جینے کی خواہش نہ تھی اور جسے جینے کی خواہش نہ ہو، جوہر جینے والے کو تعجب سے دیکھتا ہو، کیا آپ اس سے یہ چاہتے ہیں کہ وہ اس سنگین عمارت میں آ کر دو تین برس کی قید سے بچنے کے لیے جھوٹ بولے۔۔۔؟ جج صاحب آپ اس سے بات کررہے ہیں جس کی زندگی قید سے بد تر رہی ہے!‘‘
جج پر زرد رو اقبال کی بے جوڑ جذباتی گفتگو کچھ اثر نہ کرسکی اور چار پانچ پیشیوں کی یک آہنگ سماعت کے بعد اسے دو ماہ قید محض کا حکم سنا دیا گیا۔ سزا کا حکم مجرم نے بڑے اطمینان سے سنا لیکن یکا یک اس کے استخوانی چہرے پر زہریلے طنز کے آثار نمودار ہوئے اور اس کے باریک ہونٹوں کے سرے بھنچ گئے، مسکراتے ہوئے اس نے جج کو مخاطب کر کے کہا:
’’آپ نے مقدمے کی تمام کارروائی میں بہت محنت کی ہے جس کے لیے میں آپ کا شکر گزار ہوں۔ مقدمہ کی روئداد کو آپ نے جس نفاست سے ان لمبے لمبے کاغذوں پر اپنے ہاتھوں سے ٹائپ کیا ہے وہ بھی داد کے قابل ہے اور آپ نے بات بات میں تعزیرات کی بھاری بھر کم کتاب سے دفعات کا حوالہ جس پھرتی سے دیا ہے اس سے آپ کے حافظے کی خوبی کا اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ قانون ،جہاں تک میں نے اندازہ کیا ہے، ایک پردہ نشین خاتون ہے جس کی عصمت کے تحفظ کے لیے آپ لوگ مقرر کیے گئے ہیں اور مجھے اعتراف ہے کہ آپ نے اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا ۔مگر مجھے افسوس ہے کہ آپ ایک ایسی عورت کی حفاظت کررہے ہیں جسے ہرچالاک آدمی اپنی داشتہ بنا کر رکھ سکتا ہے۔‘‘
یہ لفظ عدالت کی توہین خیال کیے گیے اور اس جرم کے ارتکاب میں اقبال کی زندانی میں دو ماہ اور بڑھا دیے گئے۔ یہ حکم سن کر اقبال کے پتلے ہونٹوں پر پھر مسکراہٹ پیدا ہوئی۔
اقبال نے زیرِ لب کہا، ’’پہلے دو ماہ تھے، اب چار ہوگئے‘‘ اور پھر جج سے مخاطب ہو کر پوچھا، ’’آپ کو تعزیرات ہند کی تمام دفعات از بریاد ہیں۔ کیا آپ مجھے کوئی اسی توہین کی قسم کا بے ضرر جرم بتا سکتے ہیں، جس کے ارتکاب سے آپ کی عدالت میری گردن جلاد کے حوالے کرسکے۔ میں اس دنیا میں زندہ نہیں رہنا چاہتا۔ جہاں غریبوں کو جینے کے لیے ہوا کے چند پاکیزہ جھونکے بھی نصیب نہیں ہوتے اور جس کے بنائے قانون میری سمجھ سے بالاتر ہیں۔ کیا آپ کا یہ قانون عجیب و غریب نہیں جس نے اس بات کی تحقیق کیے بغیر کہ میں نے خودکشی کا اقدام کیوں کیا، مجھے جیل میں ٹھونس دیا ہے۔۔۔؟مگر ایسے سوال پوچھنے سے فائدہ ہی کیا۔ تعزیراتِ ہند میں غالباً ان کا کوئی جواب نہیں۔‘‘
اقبال نے اپنے تھکے ہوئے مردہ کاندھوں کو ایک جنبش دی اور خاموش ہوگیا۔ عدالت نے اس کے سوال کا کوئی جواب نہ دیا۔
This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator. |