Jump to content

خودمختار دوشیزہ

From Wikisource
خودمختار دوشیزہ
by مرزا عظیم بیگ چغتائی
319598خودمختار دوشیزہمرزا عظیم بیگ چغتائی

(انگلستان کی ایک جھلک)

’’یہ کیا ہے؟‘‘ میں نے دوسرا گلاس ختم کرتے ہوئے پوچھا، ’’بولتی نہیں، یہ کیا ہے۔۔۔؟‘‘ اس کے سرخ ہونٹ دہکنے لگے۔ سارا چہرہ شرارت کے نور سے تلملا اٹھا۔ صاف و شفاف چہرے پر سرخی جھلکنے لگی۔ چہرہ مسرت آمیز جذبات کا آئینہ تھا۔ اس نے اپنے سرخی مائل سنہری بالوں کی خوبصورت اور پیچ در پیچ لٹ کو کان کے پاس کرتے ہوئے ساحرانہ انداز سے مسکراہٹ کو روکتے ہوئے، آنکھوں کو جھپکاتے ہوئے، اپنا سر میرے بالکل ہی قریب لا کر سر سے سر ملاتے ہوئے رازدارانہ، ساحرانہ، مکارانہ لہجہ میں، کپکپاتی ہوئی آواز سےآنکھوں سے آنکھیں ڈال کر، میرا بازو دباتے ہوئے اور خالی گلاس کو ایک انداز سے میری آنکھوں سے بچاتے ہوئے کہا، ’’ہے نہیں۔۔۔ پیارے احمق۔۔۔ ہے نہیں، بلکہ تھا!‘‘ گلاس الٹا کر کے رکھ دیا اور واقعہ یہ ہے کہ گلاس خالی تھا۔ اس میں اس وقت کچھ بھی نہ تھا میں نے کہا، ’’کیا تھا۔۔۔؟‘‘

جاز کا نغمہ! خدا پناہ، قلب اور خون کو حرکت دینے والا۔ بیٹھے بٹھائے اس کی نپی تلی گت پر رگ رگ پھڑکتی ہے۔ ہم بال روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔ سامنے پری وشوں کا مجمع۔ ہر ایک اپنے محبوب کے ساتھ حرکت میں تھا۔ پوئٹری آف موشن (Poetry of motion) جس کو ہمارے یہاں ناچ یا رقص کی ذلیل اصطلاح سے یاد کرتے ہیں! نہیں جانتے کہ جس وقت حرکات و سکنات نظامِ شعری کے ماتحت فن عروض و قوافی کی پابندی کے ساتھ راگنی کا ساتھ دیتے ہیں تو نتیجہ کتنا شیریں اور ہوش ربا ہوتا ہے۔

میرے سوال کا جواب اس نے یہ دیا کہ ’’جاز‘‘ کے دلربا ترنم کے ساتھ ساتھ وہ گانے لگی۔ اس قدر آہستہ کہ سوائے ایک ہلکے ترنم کے میں بھی کچھ نہ سن سکا۔ ایک ہلکی سی جھنجھناہٹ تھی۔ مسکراہٹ سے چہرہ دمک رہا تھا، آنکھوں میں غضب کی چمک تھی۔ یہ کمبخت ایک قسم کی ہلکی شراب تھی جس کا دوسرا گلاس میں ختم کر چکا تھا۔ شراب خود کہہ دیتی ہے کہ میں شراب ہوں۔ پہلے گلاس تک تو مجھے کہنےکو شبہ تھا، دوسرے گلاس پر یقین، مگر تجاہل عارفانہ سے کام لینا پڑا۔ وہ جانتی تھی کہ میں نے کبھی شراب نہیں پی اور نہ کبھی پیوں گا۔

بہت جلد کمرے کا سین ایک رنگین و متزلزل خواب معلوم ہونے لگا۔ میرے حسین ہمدم کی خوبصورت تصویر آنکھوں کے ذریعے دل میں گھستی معلوم ہوئی۔ میرے ہاتھ میں اس کا ہاتھ تھا۔ وہ میرے سر سے سر جوڑے گویا میری آنکھوں میں غوطہ کھائے بیٹھی تھی۔ عطر سے مہک رہی، اس کی گرم گرم سانس میرے لیے کیا تھی! عجیب دلکش سماں تھا۔ سارا بال روم حسن اور نغمہ کے زور سے بھڑک رہا تھا۔ چشم زدن میں نغموں کی شیریں فضا میں بال روم جھومتا معلوم ہوا۔ بلور کی دلدوز برچھیاں نکلنے لگیں۔ ساز کے پردوں سے آتشیں لپٹ نکلتی معلوم ہوئی۔ میں نے اپنے دلنشیں دوست کو دیکھا۔ اس کی خوبصورت اور نشیلی آنکھوں میں سرور تھا اور میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا۔ جوانی۔۔۔ رعنائی۔۔۔ چہرے پر اس کے خفیف مسکراہٹ کی لرزش تھی اور نوجوان سینہ نغمے کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ دب دب کر ابھر رہا تھا۔

’’آہ!‘‘ میں نے کہا، ’’پیارے دوست! تم کس قدر دلچسپ ہو۔‘‘ اس نے مسکرا کر کہا، ’’واقعی!‘‘ میں نےکہا، ’’میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘ میرا یہ کہنا تھا کہ گویا وہ مجھے جھپٹ لے گئی۔ ایک دم سے میری کمر میں ہاتھ ڈالا۔ ’’جاز‘‘ کی گت پراز خود ہم دونوں گویا ایک دوسرے کے آغوش میں۔۔۔ آہا آہا۔۔۔! رکتے ہوئے! تلملاتے۱چھلتے ہوئے گنگناتے چلے، گٹار کے نغموں پر۔۔۔ بنجو کے تاروں پر۔۔۔ لرزش سے، جھنجھناتے چلے۔۔۔ تھرکتے ہوئے۔۔۔ جھناجھن پر پنجہ جھٹکتے۔۔۔ سر کو پٹختے ہوئے۔۔۔ کشاکش میں کاندھے رگڑتے ہوئے۔۔۔ کپڑوں کی جھم جھم۔۔۔ چہروں کی چم چم۔۔۔ دمکتے ہوئے۔۔۔ چمکتے ہوئے۔۔۔ نور کی چتونوں سے جھپکتے۔۔۔! متحرک۔۔۔ متزلزل۔۔۔ لرزاں! رقصاں! افتاں! خیزاں! ساز کے ساتھ گٹکریاں کھاتے، گرہ لگاتے، زندہ دلوں کے متزلزل و متلاطم سمندر کے ہوشربا زیر و بم میں گم ہوگئے۔۔۔

اللہ رے بے خودی! الامان! خدا محفوظ رکھے! خون میں حرکت! جی میں حرکت! دل میں حرکت! دماغ میں حرکت! خیال میں حرکت! خود مجسم حرکت۔ رقص نہیں بلکہ حرکت کاخون ’’جیز‘‘ کا قوی اور مضبوط دل نغمے کی طاقتور رشہ رگ کے ذریعہ ہر دھڑکن کے ساتھ پھینک رہا تھا، جو موجیں سی مارتا ہر شخص کو حرکت دیتا تھا۔ اسی دھڑکن سے ایک جنبش پیہم تھی! جنبش! نغمہ! حرکت! رقص! رقص! سارا بال روم مع ہمارے جھوم رہا تھا اور یہ حرکت کس قدر پرکیف، کس قدر شیریں، کس قدر دلربا اور دلکش تھی۔۔۔ کیا کہنا ہے، مشرق میں الو بولتا ہے۔ مغرب میں کیا ہے! ہندیوں سے یعنی ہم سے پوچھیے نہیں بلکہ کسی مولوی سے سہی کہ سجدہ کدھر منہ کر کے کریں۔۔۔!

انگلستان کی جما دینے والی سردی تھی۔ غلیظ کہر اور ابر۔ کوئی بھلا مانس باہر نہیں نکل سکتا۔ سہ پہر کا وقت تھا۔ میں آتش دان کے سامنے بیٹھا صاحب خانہ سے دلچسپ باتیں کر رہا تھا۔ باتیں۔ معلوم ہوا کہ کوئی صاحب باہر مجھ سے ملنے آئے ہیں۔ اندر نہیں آتے۔ بس کھڑے کھڑے مل لیں گے۔ میں نے کہا کون ہے تو معلوم ہوا کوئی بڈھا خبطی۔ میری زبان سے نکلا، ’’بڈھا۔‘‘ اور میں اٹھا۔

کوئی ساٹھ برس یا حد پینسٹھ کی عمر ہوگی، کتھئی رنگ کا سوٹ پہنے ایک طوفان زدہ نائٹ کیب۔ چہرہ سرخ مگر ناک اور بھی سرخ انگارہ، مونچھیں سفید مگر پائپ کے تمباکو کے دھوئیں نے بھورا کر دیا تھا۔ پتلون ٹانگوں سے مع مبالغہ ڈیڑھ گز بڑا، جس کی وجہ سے معلوم ہو کہ اس شخص کی ہرٹانگ میں کئی گھٹنے ہیں، نہ سہی، یہ تو کم از کم گھٹنے کا محل وقوع تو معلوم کرنے میں قطعی دشواری ہو۔ آنکھیں نیلی۔ چہرہ باوجود بڑھاپے کے خوبصورت۔ ناک و نقشہ بھی پاکیزہ۔ کشیدہ قامت چہرہ۔ نہایت ہی رکھائی سے بات چیت ہوئی۔ بڑے میاں نے میرے نام کی مجھ سے تصدیق چاہی اور میں نے اثبات میں جواب دیا تو ذرا چہرہ کو سنجیدہ بنا کر انہوں نے انتہائی ’’انگلش‘‘ سادگی سے کہا (جو کچھ کہا میں اس کا ترجمہ پیش کرنےکی کوشش کرتا ہوں ورنہ اصل لطف تو انگریزی ہی میں ممکن تھا۔ ) خیر وہ ولے، ’’لک ہیئر بوائے! تمہاری محبوبہ کون ہے؟ کیا میں اس کا نام معلوم کر سکتا ہوں؟‘‘

میں حقیقت کی تہہ کو پہنچ گیا۔ میں نے کہا، ’’جناب من۔ معاف کیجیے گا۔ میری کوئی مجبوبہ نہیں۔ ہاں میری دوست ملنے والی کئی خوبصورت لڑکیاں ہیں۔‘‘

’’جان میں کوئی خاص بھی ہے!‘‘ میں نے مکاری سے کہا، ’’سب خاص ہیں۔‘‘

’’اولڈ بوائے۔‘‘ بڑے میاں جھلا کر بولے، ’’میں بھی کبھی تمہاری طرح نوجوان تھا اور۔۔۔ اور۔۔۔ مکار بھی۔ تمہاری ملنے والیوں میں کوئی سب سے زیادہ خوبصورت بھی ہوگی۔‘‘ میں نے عیاری سے کہا، ’’کوئی کسی کو خوبصورت خیال کرتا ہے اور کوئی کسی کو۔ یہ تو اپنی اپنی نظر ہے۔‘‘ بڑے میاں جھلا کر بولے، ’’میں ادھر ادھر کی باتیں نہیں کروں گا۔ سن لو کان کھول کر۔ میں ایملی کا باپ ہوں۔۔۔‘‘ بات کاٹ کر میں نے تصنع سے کہا، ’’اوہو! آپ میری پیاری دوست کے باپ مسٹر الیٹ ہیں۔ میں بے حد خوش ہوا۔ جناب کی خدمت میں نیاز۔۔۔‘‘ بڑے میاں خفا ہو کر بولے، ’’تم۔۔۔ تم اس کے ساتھ ساتھ گھومے شبستانوں میں۔۔۔ رات گئے تک۔۔۔‘‘

’’معاف کیجیے گا۔ معاف کیجیے گا۔‘‘ میں نے کہا، ’’جی۔ جی۔ وہ میرے ساتھ ساتھ گھومتی ہیں۔ یہی مطلب ہے جناب کانا۔۔۔؟‘‘

’’تم اسے جگہ جگہ لے جاتے ہو۔‘‘ میں نے کہا، ’’غالباً وہ مجھے جگہ جگہ لے جاتی ہیں۔ میں انہیں نہیں لے جاتا۔ یہ آپ نے کیسے فرمایا؟ میں ان کے ساتھ پھرتا ہوں یا وہ؟ وہ مجھے لے جاتی ہیں یا میں؟‘‘ بڑے میاں بولے، ’’خیر بات ایک ہی ہے، تو مطلب یہ ہے کہ میں یہ ہرگز نہیں پسند کرتا کہ میری لڑکی بغیر میری اجازت کے اجنبی لڑکوں کے ساتھ اس آزادی سے رات گئے تک گھومتی رہے۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ تم سے ملے۔ میں نہیں چاہتا کہ تم اسے جگہ جگہ لیے پھرو۔ ابھی مجھے کل ہی معلوم ہوا کہ ایک رقص کے جلسے میں وہ ضرورت سے زیادہ آزادی کے ساتھ تمہارے گلے میں بانہیں ڈالے کھڑی تھی۔۔۔ ناقابل برداشت ہے۔‘‘

میں نے کہا، ’’جناب من۔ میں آپ کی رائے سے اتفاق کرتا ہوں۔ آپ اگر اپنی صاحب زادی کو روکنا چاہتے ہیں تو بہتر ہے کہ آپ خود انہیں سے کہیے۔ غالباً آپ کا حق ان پر زائد ہے کہ وہ آپ کے احکام کی پابند ہوں۔ معاف کیجیے میرے اوپر آپ کی حکم برداری لازمی نہیں، آپ چاہتے ہیں کہ وہ مجھ سے نہ ملیں اور اپنے ساتھ مجھے جگہ جگہ نہ لیے پھریں۔ مجھے افسوس ہے کہ آپ تجربہ کار ہو کر مجھے دبانا چاہتے ہیں، خود آپ کی لڑکی جب نہیں مانتی تو کیونکر آپ کے حکم کی تعمیل پر مجھ کو مجبور کیا جا سکتا ہے۔‘‘

بڑے میاں جل کر بولے، ’’مگر تم اس کے ساتھ یہ حرکتیں جاری نہیں رکھ سکتے۔ تم میری بھولی بھولی لڑکی کوآوارہ کر دوگے۔‘‘ میں نے جل کر کہا، ’’قبلہ من میں کالا ہوں یا کہ وہ؟ میں خوبصورت ہوں کہ وہ؟ میں ان کو بگاڑ سکتا ہوں یا وہ مجھے؟ مجھے وہ احمق بنا سکتی ہیں یا میں ان کو؟ میں بھولا ہوں یا وہ؟ میں قابل الزام ہوں یا وہ۔۔۔؟ دیکھیے اور انصاف کیجیے۔۔۔‘‘

یہ کہہ کر میں نے اپنے چچا صاحب قبلہ کا خط ان بڑے میاں کے ہاتھ میں دیا۔ شفیق چچا جن کی صاحب زادی کے دست حق پرست پر مجھ کو ابھی ایمان لانا باقی تھا۔ یہ خط انگریزی میں تھا۔ اس میں کیا لکھا ہوگا! اپنے ہونے والے داماد کو ایک شخص کیا لکھ سکتا ہے، جب کہ داماد ولایت میں ہو۔ اگر ان انگریز بڑے میاں کی حسین و دلربا صاحب زادی بھولی بھالی اور معصوم تھیں تو یہ خاکسار اپنے شفیق چچا کی نظروں میں معصوم تر تھا۔ چچا صاحب قبلہ کو بے حد اندیشہ تھا کہ کہیں یہ ناز نینانِ فرنگ مجھ بھولے بھالے اور معصوم نوجوان کو آوارہ نہ بنا دیں۔ ان کی چالاکیاں، عیاریاں، فریب کاریاں ایسی ہیں کہ یہ مغربی تیتریاں مجھے آوارہ کر دیں گی۔ لہٰذا مجھے ان سے بچنا چاہیے۔ اس بڈھے انگریز نے سب کا سب خط غور سے پڑھا۔ پائپ منہ سے نکال کر کرسی پر پیر رکھتے ہوئے بولا، ’’اہم۔۔۔ م۔۔۔ م۔۔۔‘‘ بھویں چڑھائیں۔ مجھ سے پوچھا، ’’یہ کون ہیں؟‘‘ میں نے جواب دیا، ’’یہ میرے چچا ہیں۔‘‘

’’توکیا یہ سب یورپین لڑکیوں کو ایسا ہی سمجھتے ہیں؟‘‘

’’میں کیا جانوں۔‘‘ میں نے بے پرواہی سے کہا۔

’’مگر کیا یہ بہتر نہیں کہ تم ایملی سے اب نہ ملو۔ اب تو اور بھی نہ ملو۔‘‘ میں نے کہا؛ ’’بالفاظ دیگر وہ مجھ سے نہ ملیں۔ تو آپ ان کو بتاکید کہہ دیں کہ وہ مجھ سے نہ ملیں اور نہ مجھے جگہ جگہ لیے پھریں ورنہ آپ کا کیا خیال ہے۔۔۔ بالفرض میرے چچا آپ کی پیاری صاحب زادی کو لکھیں۔۔۔ آپ تو جانتے ہیں کہ وہ میری عزیز ترین دوست ہیں۔ میرا ان کا یہ رشتہ نہیں میں ان سے کہوں کہ۔۔۔‘‘

بات کاٹ کر وہ بولے، ’’تم ہندوستانی لوگ۔۔۔‘‘ میں خاموش رہا۔ وہ بولے، ’’ہم لوگ ہندوستانیوں کو قطعی پسند نہیں کرتے۔‘‘

’’اور ہندوستان کو؟‘‘

’’ہندوستان بھی ناپسند ہے۔‘‘

’’اور پھر ہماری چھاتی پر سوار ہو۔ جان چھوڑو نا ہماری۔۔۔‘‘

بات کاٹ کر بولے، ’’کتنے ہندوستانی ہماری لڑکیوں سے میل رکھتے ہیں اور محبت کرتے ہیں اور پھر کتنے ان میں سے شادی کی نیت رکھتے ہیں اور پھر کتنے ان میں سے شادی کرتے ہیں۔ شاید دس فیصدی بھی ہماری لڑکیوں سے شادی نہیں کرتے۔ ارادہ ہی شادی کا نہیں رکھتے۔ پھر ایسی صورت میں ہماری لڑکیوں سے کیوں ملتے ہیں اور پھر وہ بھی کیسے؟ جیسے تم میری ایملی سے ملتے ہو۔۔۔ سخت اعتراض۔۔۔ قابل نفرت۔۔۔ ناقابل برداشت۔۔۔ کان کھول کر سن لو۔ یہ صورت حال جاری نہ رہنی چاہیے، میں سب سن چکا۔ بہتر ہے کہ آئندہ تم ایملی کے ساتھ نہ نظر پڑو۔۔۔‘‘

’’بالفاظ دیگر وہ میرے ساتھ نظر نہ پڑیں۔ قطعی۔۔۔ ٹھیک۔۔۔ اس کا مناسب انتظام فرمائیں۔‘‘

’’مائی لیڈ۔۔۔‘‘ برہم ہو کر بڈھے نے کہا، ’’تم جوان ہو اور میں بوڑھا ہوں، ورنہ ابھی تم کو معلوم ہو جاتا کہ راستی کیا ہوتی ہے۔ تم جذبات کا خیال نہیں کرتے۔ ایک بھولی بھالی لڑکی کو خراب کرنے کے درپے ہو۔۔۔‘‘ میں نے برا مان کر کہا، ’’غالباً اس قسم کے الفاظ سننے کے لیے تیار نہیں ہوں۔ قابل احترام بزرگ۔ آپ بچہ نہیں ہیں نہ آپ کی بچی بچہ ہے، وہ تعلیم یافتہ ہے، پڑھی لکھی ہے۔ آزاد ہے۔ خود مختار ہے۔ اپنا برا بھلا خود بہتر جانتی ہے۔ آپ نے اس کو سمجھایا اچھا کیا۔ نہیں مانتی؟ وہ خود جانے، آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ آپ کی صاحب زادی صاحبہ ماشاء اللہ نہ صرف نوجوان اور خوبصورت ہیں بلکہ نہایت ہی سمجھدار، ہوشیار، عقلمند اور صائب الرائے ہیں۔ احمق نہیں ہیں اور اگر ہیں تو نہ میرے بس کی بات نہ آپ کے۔ یہ بھی آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ میرے اوپر آپ کا زور نہیں چل سکتا۔ میں اپنے فعل کا خود مختار ہوں۔ آپ کو کوئی حق نہیں کہ مجھ سے ایسی باتیں کریں۔ اس سے کہیں بہتر ہے کہ براہ کرم جائیے اور معاملات پر ٹھنڈے دل سے غور کیجیے۔‘‘

بڑے میاں کی حالت یہ سن کر غیر ہوگئی۔ بے بسی نے غصے کو دبانے پر مجبور کیا۔ ہونٹ چبا کر رہ گئے۔ تاؤ کھا کر رہ گئے۔ گھٹ کر رہ گئے۔ کہنے لگے، ’’والٹرآئے گا تب وہ تم سے ہندوستانی طریقے سے معاملہ فہمی کرے گا اور جب ہی تم راہ راست پر آؤگے۔‘‘ میں نے کہا، ’’خوش آمدید۔ خوش آمدید۔ مسٹر والٹر کو خوش آمدید۔ میں ہمیشہ معاملہ فہمی کے لیے تیار ہوں۔‘‘

’’غالباً تم اس تکلیف کا خیال نہ کروگے۔‘‘

’’اوہ!‘‘ میں نے معذرت کو قبول کرتے ہوئے کہا، ’’ہرگز نہیں۔۔۔ ہرگز نہیں۔۔۔‘‘

’’خداحافظ۔۔۔‘‘

’’خداحافظ۔۔۔‘‘

مجھے غالباً اس انگریز بڈھے سے ہمدردی تھی۔ ایک گونہ تکلف کے ساتھ اپنی کرخت اور گٹھیاوی ٹانگوں سے چلا جا رہا تھا۔ دھواں چھوڑتا ہوا میں اس کو دیکھتا رہا۔ حتی کہ وہ سڑک پر کہرے کے دھند میں غائب ہو گیا۔

واقعے کے کوئی دو ہفتہ بعد کا ذکر ہے کہ ایملی کے ہاتھ میں ہاتھ ڈالے میں پارک کی طرف جا رہا تھا۔ ایک دم سے ہمارا راستہ ایک تنومند نوجوان نے سامنے سے روک لیا۔ ایملی ایک دم سے ذرا پیچھے ہو گئی۔ یہ شخص نہایت ہی وجیہ، متناسب الاعضا، دھاری دار، وضع دار سوٹ پہنے، ذرا ترچھی ٹوپی لگائے، اپنی کمر پر دونوں ہاتھ رکھ کر کھڑا ہوگیا۔ لڑکی کی طرف انگلی اٹھا کر مجھ سے بولا، ’’تم جانتے ہو یہ تمہاری ساتھی لڑکی کون ہے۔۔۔؟ تم جانتے ہو کہ یہ تمہارے ساتھ کون احمق لڑکی ہے۔۔۔؟ (رک کر) میری بہن ہے۔‘‘

میں نے کہا، ’’تو پھرمیں کیا کروں؟‘‘

’’میں کیا کروں۔۔۔! کیا میں بتاؤں کہ تمہیں کیا کرنا چاہیے؟‘‘

’’بہتر ہے۔‘‘ میں نے کہا، ’’گو میں خود بتاتا ہوں۔‘‘ (میں نے طنزیہ لہجے میں کہا) ’’مگر ہاں آپ بتائیں اور ضرور بتائیں۔‘‘

’’تم اس وقت اسے کہاں لیے جاتے ہو؟‘‘ وہ چیخ کر بولا۔ میں نے کہا، ’’بالفاظ دیگر یہ مجھے اس وقت کہاں لیے جا رہی ہیں۔۔۔؟ شاید یہ خود بتا سکیں۔‘‘

’’یہ فرض آپ کا ہے نہ کہ اس احمق لڑکی کا۔‘‘ وہ ذرا زور دے کر بولا۔ میں نے کہا، ’’جناب من! مجھے اپنے تمام فرائض کا نہ صرف علم بلکہ احساس بھی ہے اور غالباً ان فرائض کی سبکدوشی کے بارگراں سے آپ کے کندھوں کو دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔۔۔ ویسے آپ کی مرضی مگر غالباً ہم دونوں اس موقعے پر کوئی عملی ’’بدمزگی‘‘ کے خوشگوار امکان پر غور کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔‘‘

’’مگر آپ پر واضح ہو جانا چاہیے کہ یہ بیوقوف لڑکی میری چھوٹی بہن ہے۔‘‘

میں نے کہا، ’’واضح ہو گیا۔‘‘

’’اچھا۔ تو پھر میں تم سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ تم اسے روز کیوں لیے پھرتے ہو۔‘‘

’’پھر وہی!‘‘ میں نے کہا، ’’بالفاظ دیگر یہ مجھے روز کیوں لیے پھرتی ہیں؟ شاید کہ یہ خود بتا سکیں۔‘‘ وہ بولے، ’’اچھا یوں ہی سہی تو میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے ہندوستانیوں سے نفرت ہے۔‘‘ (منہ بگاڑ کر۔ ) میں نے کہا، ’’میں دوستانہ مشورہ دیتا ہوں کہ آئندہ آپ قابل نفرت ہندوستانیوں سے بات بھی نہ کریں بلکہ اسی دم اس پر عمل درآمد کریں۔ کیا آپ ایسا نہ کریں گے؟‘‘ وہ تیز ہو کر بولے، ’’لک ہیئر (اِدھر دیکھو) میں اس قسم کی گفتگو کا عادی نہیں ہوں۔ بس خیریت اسی میں ہے۔۔۔ یہ راستہ ہے واپسی کا (انگلی اٹھا کر) سیدھے، تیر کی طرح بھاگ جاؤ۔۔۔ کوئک مارچ! بھاگو۔۔۔‘‘

اس کی غصے سے آنکھیں لال ہو گئیں۔ نوجوان انگریز سخت غضبناک تھا۔ مگر خوش قسمتی سے انگریز جتنا مضبوط اور توانا ہوتا ہے اسی مناسبت سے ’’وہسکی‘‘ بھی پئے رہتا ہے۔ یہ انگریز بھی تھے اور مضبوط بھی۔ پھر میں بھی مٹی کا بنا ہوا نہیں تھا، مگر حق اس کی طرف تھا۔ میں حتی الوسع دبنا ہی چاہتا تھا۔ لہٰذا میں نے یہ بدمستی ان کی برداشت کی اور کہا، ’’مائی لارڈ۔ آپ کا زور بیان سر آنکھوں پر۔ مگر کیا میں عرض نہیں کر سکتا کہ ان الفاظ کو آپ واپس لیں۔ بجائے مجھے حکم دینے کے بہتر ہے کہ آپ اپنی دلچسپ اور شیریں بہن کو حکم دیں کہ وہ آپ کے ساتھ چلی جائیں۔ یہ سیدھا راستہ ہے۔۔۔‘‘

’’میں یہیں کھڑا رہنا، تنہا کھڑا رہنا زیادہ پسند کروں گا۔ آپ جائیں دونوں بھائی بہن، کوئک مارچ۔۔۔‘‘

یہ بات ان کے انگریزی دماغ میں آگئی اور فوراً بہن سے بولے، ’’کم آن ایملی۔‘‘ بہن صاحبہ خاموش رہیں، مگر ایک قدم اور پرے ہٹ گئیں۔

’’ڈونٹ بی سیلی۔۔۔‘‘ (احمق پن نہ کرو) وہ بولے۔ بہن بولی، ’’کانٹ یولک ٹو یور اون افیرز۔‘‘ (کیا تم خود اپنے معاملات میں مشغول ہونا پسند نہ کرو گے۔“)، (بہ نسبت اس کے کہ میرے معاملات میں دخل دو۔) تن کر بولے، ’’اب زیادہ احمق نہ بنو۔۔۔ شمپین پی پی کر، مدہوش ہو کر، حبشیوں کے ساتھ ناچنا قطعی قابل اعتراض ہے۔‘‘ برہم ہو کر بہن بولی۔ ذرا چیخ کر، ’’کانٹ یولک ٹو یور اون افیئرز لیو می الون۔‘‘ (مجھے چھوڑو اور اپنے معاملات دیکھو۔ )

بہن سے شکست کھا کر اب بھائی صاحب بہادر میری طرف پھر متوجہ ہوئے۔ بولے، ’’غالباً اب تم کچھ ٹھوس اور مادی چیز پسند کروگے۔‘‘ اپنی مٹھی کا گھونسا بناتے ہوئے سر ہلا کر بولا۔ میں نے کہا، ’’ضرور۔ مادی بھی اور غیر فانی بھی۔‘‘ اتنا کہہ کر میں اڑنگا لگانے کے امکان کی طرف متوجہ ہوا۔ غضب ناک انگریز نے کچکچا کر گھونسا مارا۔ ایک۔ دو۔ تین۔ پہلا خالی گیا۔ دوسرا میرے کندھے پر اوچھا سا لگا۔ تیسرا اس کی بہن نے پکڑ لیا اور وہ بھائی سے لپٹ پڑی۔ میرے اور اپنے بھائی کے بیچ میں آگئی۔ اس کے بھائی کا قابل اعتراض رویہ در اصل ایک انگریز دوشیزہ کی غیور طبیعت کے لیے ناقابل برداشت تھا۔ خود غور فرمائیے۔ کیا اس کے نوجوان ملنے والوں کا یہی حشر ہونا چاہیے۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر انگلش سوسائٹی کا نظام ہی برہم ہو جائے گا۔ ہر عاشق شادی سے قبل دوران کورٹ شپ ہی میں پٹ جائے! یہ پروگرام تو سخت ’’اَن انگلش‘‘ ہوا۔

اس نے بگڑ کر بھائی سے کہا، ’’والٹر۔ یہ ناقابل برداشت ہے۔ بس۔ خبردار جو میرے معاملات میں دخل دیا۔‘‘

’’مت بکو تم۔‘‘ بھائی نے پیر پٹخ کر کہا، ’’یہ کالا حبشی۔۔‘‘

’’پھر تم کون؟‘‘ بہن چمک کر بولی، ’’کیوں کیا تم ایمانداری سے کہہ سکتے ہو کہ تم سے تمہاری محبوبہ کے باپ نے کتنی دفعہ تاکید سے کہا ہے کہ میری لڑکی سے نہ ملو۔‘‘

’’تو پھر؟‘‘ والٹر نے کہا۔

’’کیا تم نے اس یہودی صفت ہونے والے خسر سے یہی نہیں کہہ دیا کہ منع کر لو اپنی لڑکی کو اور کیا وہ مان گئی؟ کیا وہ اب تم سے نہیں ملتی۔ کیا وہ تمہاری زوجہ نہیں بنے گی؟ کیا تمہارا ہونے والا خسر تم سے نہیں ہار گیا؟‘‘

والٹر نے کہا، ’’تو پھر تمہارا کیا مطلب ہے؟‘‘

’’مطلب میرا یہ ہے کہ تم جاؤ یہاں سے۔‘‘

والٹر نے کہا، ’’تمہارے اس سیاہ فام دوست (یعنی خاکسار) کا سر پھاڑنے سے قبل؟‘‘

میں نے احتجاج بلند کیا، ’’تم اپنے بھائی کو منع کرو۔‘‘ باوجود یکہ اس سے بھی زیادہ توہین آمیز الفاظ سننے کے لیے میں تیار تھا، لیکن میں نے ایملی سے کہا، ’’میں اب برداشت نہیں کر سکتا۔‘‘ والٹر نے میری طرف حقارت آمیز نظر ڈالتے ہوئے کہا، ’’میں اپنی بہن کو ایک سیاہ فام انسان کے ساتھ معاشقہ کرتے کیسے دیکھ سکتا ہوں۔ میرے لیے تو یہ ناقابل برداشت ہے۔‘‘ تیز ہو کر ایملی بولی، ’’والٹر تم اپنی زبان کو روکو۔ میں ہرگز کسی سے معاشقہ نہیں کرتی اور کروں تو مجھے کوئی نہیں روک سکتا۔ میں تمہاری طرح ریاکار نہیں ہوں۔ میں معاشقہ کروں گی تو مجھے کس کا ڈر ہے۔ بہتر ہے کہ تم اپنی زبان کو لگام دو۔ میرا کوئی عزیز دوست لازمی نہیں کہ میرا عاشق بھی ہو اور اگر بالفرض ہو بھی تو تم درمیان میں نہ پڑو۔‘‘ والٹر نے کہا، ’’تمہارا کالا جنگلی دوست۔۔۔‘‘

میں تڑپ کر تیزی سے آگے بڑھا۔ گویا حملہ کروں گا، مگر ایملی نےمجھے روک لیا۔ اس نے جھلا کر بھائی سے کہا، ’’تمہاری عقل میں کچھ فتور ہے۔ والٹر تم اپنی ’وہسکی‘ میں پانی زیادہ ملا کر پیا کرو۔۔۔ بہتری اب اسی میں ہے کہ تم جاؤ اپنے رستہ۔ مگر نہیں! لو ہم خود جاتے ہیں۔۔۔‘‘ ہم دونوں اس لڑاکا والٹر کو وہیں چھوڑ کر واپس چلے۔ وہ خاموش کھڑا تھا۔ کھڑا رہا۔ جیب میں ہاتھ ڈالے۔ وہسکی کی ترنگ میں کھڑا جھوم رہا تھا۔ ہمیں دونوں کو جاتےدیکھ رہا تھا۔ دیکھتا رہا۔ مڑمڑ کر ہم نے اسے دیکھا۔ ہنسے اور ہنس ہنس کر اسے دیکھا۔ قہقہے لگائے۔ جب ذرا دور نکل گئے تو ا یک دفعہ پھر مڑ کر دیکھا۔ ایک دم سے ایملی رک گئی۔ مڑ کر اس نے پکارا، ’’والٹر۔۔۔ والٹر۔۔۔ صلح کرتے ہو۔ صلح۔ صلح۔۔۔ کرتے ہو؟‘‘

سرہلا کر والٹر نے کہا، ’’نو۔۔۔ و۔۔۔‘‘ (انگلی کے جھٹکے سے اپنی بیزاری ظاہر کرتے ہوئے۔ ) ایملی نے کہا، ’’میں تمہاری منگیتر کے باپ کو کنجوس نہ کہوں گی۔۔۔‘‘ والٹر نے کہا، ’’نو۔۔۔ و۔۔۔‘‘

’’والٹر دوبارہ سوچو، صلح کرتے ہو؟‘‘ والٹر نے پھر وہی جواب دیا، ’’نو۔۔۔ و۔۔۔ و۔۔۔ بھاگ جاؤ۔۔۔‘‘ ایملی نے کہا، ’’میں پھر اسے (والٹر کی منگیتر کو) ہر جگہ چھپکلی کہوں گی۔۔۔‘‘ والٹر نے گھبرا کر کہا، ’’تم ہرگز ایسا نہیں کر سکتیں۔‘‘ (آگے بڑھ کر) ’’تم اسے کئی آدمیوں کے سامنے خوبصورت تسلیم کر چکی ہو۔ وعدہ کر چکی ہو کہ چھپکلی نہ کہو گی۔ اس کی شہادت موجود ہے۔‘‘

’’مگر میں اسے چھپکلی ضرور کہوں گی۔‘‘

والٹر آگے بڑھتے ہوئے، ’’تمہاری اس ناشائستہ حرکت سے اس کے نازک دل کو صدمہ پہنچنے کا سخت اندیشہ ہے۔ تم ہرگز ایسا نہیں کر سکتیں۔ بھلا سوچو تو اس کا باپ کیا کہے گا، دل میں وہ کیا سوچے گی۔‘‘

’’مگر میں اسے چھپکلی ضرور کہوں گی۔۔۔ اس کے باپ کو منحوس اور کنجوس کہوں گی۔‘‘ والٹر اور آگے بڑھ چکا تھا۔ کہنے لگا، ’’میری پیاری بہن۔ کیا تو ابھی ابھی صلح کرنے کو نہیں کہہ رہی تھی۔ یہ تجھے کیا ہوگیا؟‘‘

’’پیارے والٹر صلح کرتے ہو؟‘‘

’’ہم لڑے کب تھے؟‘‘ والٹر نے کہا۔ میری طرف اشارہ کرکے ایملی نے والٹر سے کہا، ’’پیارے بھائی۔ کیا تم میرے دوست سے تعارف حاصل نہ کروگے۔‘‘

’’افوہ!‘‘ انگریز کی سادہ لوحی یا شراب کے نشے، ان دونوں میں سے ایک پر ضرور قربان جائیے! یہ مسخرا والٹر مجھ سے سچ مچ صاف دل ہو کر مصافحہ کر رہا تھا۔ میں نے غور سے دیکھا۔ واقعی اس کا دل کینہ سے پاک تھا۔

’’غالباً ہم بہترین دوست ہیں۔‘‘ چلتے ہوئے والٹر نے کہا۔

’’اوہو!‘‘ میں نے کہا، ’’قطعی۔ اس میں شک کی گنجائش کسی طرف سے نہیں۔‘‘ ایملی نے بھائی سے کہا، ’’غالباً ہم دونوں خود مختار اور سمجھدار ہیں اور اپنے معاملات کو خود بہتر سمجھتے ہیں۔‘‘

والٹر نے اس کو تسلیم کیا۔ والٹر اپنی راہ چلا گیا اور ہم۔ ہم دونوں؟ نہ پوچھیے جی میں آتا تھا کہ اس دلچسپ واقعہ کی نوعیت پر غور کریں اور قلا بازیاں کھائیں۔ سیدھے ہم دونوں ہوٹل پہنچے، ناشتہ کیا اور پھر وہاں سے ایک جوئے گھر کے مشاغل کو بنظر استحسان دیکھتے ہوئے بال روم کے دروازے تک تو اپنے پیروں پر رہے اور پھر اندر داخل ہوتے ہی ’’جاز‘‘ کے نغموں کی حرکت کی وجہ سے سر کے بل۔۔۔!


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.