خوب رو سب ہیں مگر حورا شمائل ایک ہے
خوب رو سب ہیں مگر حورا شمائل ایک ہے
اور مہ پارہ ہیں لیکن ماہ کامل ایک ہے
حق تعالی اس کے زلفوں سے بچائے الحذر
سامنا ہے دو بلاؤں کا مرا دل ایک ہے
کون سا راحت رساں معشوق ہے آفاق میں
دوسرا بھی آفت جاں ہے جو قاتل ایک ہے
میں تڑپتا ہوں تو کہتے ہیں اسیران قفس
زخم خوردہ ہم گرفتاروں میں بسمل ایک ہے
جس کا جی چاہا چلا آیا بغیر از اطلاع
آپ کی سرکار میں بازار و محفل ایک ہے
شمع چلتی ہے تو پروانے بھی جل جاتے ہیں ساتھ
واہ کیا ان عاشق و معشوق کا دل ایک ہے
رند و زاہد دونوں پوچھیں گے برابر دیکھنا
تفرقہ ان میں دوراہے تک ہے منزل ایک ہے
اس کی زلفوں کا تصور ہے جو ہر دم دل نشیں
میں سمجھتا ہوں کہ دو لیلیٰ ہیں محمل ایک ہے
جو معرف کاملوں کے تھی اگر ہوتی وہ آج
ہم کو بھی کہتے یہ اپنی فن میں کامل ایک ہے
بحرؔ اپنی بھی فصاحت جانتے ہیں اہل فہم
دوسرے ہم ہیں اگر سحبان و ایل ایک ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |