خوب رویان جہاں چاند کی تنویریں ہیں
خوب رویان جہاں چاند کی تنویریں ہیں
پتلیاں آنکھوں کی روشن ہوں وہ تصویریں ہیں
شعر گویوں کو مضامین کی توقیریں ہیں
کہنے کو ایک زمیں سیکڑوں جاگیریں ہیں
یار سے ہوتی ہے گستاخ جو ہوتی ہو سو ہو
زلفیں ہاتھوں میں ہیں یا پاؤں میں زنجیریں ہیں
کوئی آداب محبت کو بھلا کیا جائے
ذلتیں جتنی ہیں عاشق کی وہ توقیریں ہیں
کروں توبہ جو ہو پیدا بن ہر مو سے زباں
جتنے ہیں موئے بدن اتنی ہی تقصیریں ہیں
وہ بھویں مار اتاریں گے کسی دن مجھ کو
جن کے قبضے میں قضا ہے یہ وہ شمشیریں ہیں
قول حق پر ہوئے کب متفق اہل دنیا
ایک قرآن ہے جس کی کئی تفسیریں ہیں
کیا یقیں آئے مجھے حال بہشت و دوزخ
میں ہوں جس خواب میں سب اس کی یہ تعبیریں ہیں
سات دوزخ کیے خلق اس نے کریمی اس کی
ایک ہفتے کی ہمارے لیے تعزیریں ہیں
چار اینٹیں ہوئیں کس کے نہ محل نخوت
مقبرے آج سلاطین کی تعمیریں ہیں
ایک ذرے کو جو قسمت سے نہ جنبش ہو نہ ہو
خاک اڑانے کو تو آندھی مری تدبیریں ہیں
کوئی خوش خوان ہو قاصد تو بہت بہتر ہے
میرے نامے میں ترانے کی بھی تحریریں ہیں
ہڈیاں جسم میں جلتی ہیں پلیتے کی طرح
عشق کے اسم جلالی کی یہ تاثیریں ہیں
دل کو ہر وقت جو رہتی ہے بتوں کی تسبیح
اپنے نالوں کو سمجھتا ہوں کی تکبیریں ہیں
بحرؔ ارژنگ جہاں کا نہ تماشائی ہو
جن کا سایہ ہے بلا اس میں وہ تصویریں ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |