خواریاں بدنامیاں رسوائیاں
Appearance
خواریاں بدنامیاں رسوائیاں
عشق نے شکلیں یہ سب دکھلائیاں
وہ ہی کیں باتیں جو تجھ کو بھائیاں
بل بے اے ظالم تری خودرائیاں
مر گئے لاکھوں ہی اور پروانہ کی
کیا کہوں میں اس کی بے پروائیاں
ایک صورت کے لیے اس عشق میں
سیکڑوں صورت کی ہیں رسوائیاں
شوق میں آغوش تیغ ناز کے
زخم دل لیتے ہیں سب انگڑائیاں
ہم سے پوچھے کوئی عزلت کا مزہ
گوشۂ صحرا ہے اور تنہائیاں
دل مشبک صورت بادام ہے
برچھیاں پلکوں کی کس کی کھائیاں
خانۂ دل پر ہمارے یا نصیب
بادلوں نے بجلیاں برسائیاں
مصحفیؔ بھی ہے پھنکیتوں میں میاں
یاد ہیں اس کو بھی کتنی گھائیاں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |