خنک جوشی نہ کرتے جوں صبا گر یہ بتاں ہم سے
خنک جوشی نہ کرتے جوں صبا گر یہ بتاں ہم سے
تو مثل غنچۂ گل دل نہ جاتا رائیگاں ہم سے
پھرے اس زلف و رو کے عشق میں دونوں جہاں ہم سے
ادھر کفار پھر گئے سب ادھر ایمانیاں ہم سے
عدو تھے مالی اور صیاد گلچیں نے قیامت کی
خدا لعنت کرے تینوں پہ چھوٹا گلستاں ہم سے
اجاڑا گریہ و شور جنوں کے واسطے ہم کو
ولے گلشن کو اور آب و نمک تھا باغباں ہم سے
ہمیں تو راستی جوں تیر ہرگز راس آئی نیں
ہمیشہ ٹیڑھے ہی رہتے ہیں یہ ابرو کماں ہم سے
عقب یاروں کے سر پر خاک کرتے ہم بھی جاتے ہیں
رہا جاتا نہیں جوں گرد راہ کارواں ہم سے
ہمیں طفلاں تو پتھروں کی محبت سے نہ بھولیں گے
چلے صحرا کو ہم پھر گئے بلا سے شہریاں ہم سے
ہمیں ٹک ذبح کر لے سایۂ گلبن میں جیتا رہ
چھڑایا تو نے گر صیاد گل کا آستاں ہم سے
مزے میں درد سر کے کب سے محتاج دوا عزلتؔ
عبث اے صندلی رنگو ہوئے ہو سرگراں ہم سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |