خط دیکھیے دیدار کی سوجھی یہ نئی ہے
خط دیکھیے دیدار کی سوجھی یہ نئی ہے
ویفر کی جگہ آنکھ لفافے پہ لگی ہے
خاکستر تن خیر ہو برباد ہوئی ہے
اڑتی یہ خبر گرد پریدہ سے سنی ہے
ہم خوابیٔ جاناں مری قسمت میں لکھی ہے
سوتے میں زلیخا کی طرح آنکھ لگی ہے
لو عشق کی وہ ہے کہ پتنگے کو جلا کر
سر میں جو لگی شمع کے تلوے میں بجھی ہے
مٹ جائے گا ہر آدم خاکی کا مرقع
تصویر گلی جو ہے بگڑنے کو بنی ہے
رونے کو میں ہوں بارش باراں کے مقابل
آنسو جو تھمے دیدۂ پر نم تو ہنسی ہے
جی جاؤں کہ مر جاؤں میں اس نالہ کشی سے
نتھنوں میں ہے دم نے کی طرح ناک میں جی ہے
ٹپکیں ہوسیں کیوں نہ پسینے سے ہمارے
ہر رونگٹے سے خواہش دل پھوٹ بہی ہے
سینے پہ دھرے ہاتھ نہ مجھ سوختہ جاں کے
پہلو میں کلیجے کی جگہ آگ دبی ہے
قاضی کا ارادہ ہے کہ ہے مے کا مچلکہ
توبہ در مے خانہ پہ دینے کو ڈھہی ہے
اب شادؔ غزل اور کہو قید روی میں
اس کے تو سب ابیات میں ایطائے جلی ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |