خدا ہی اس چپ کی داد دے گا کہ تربتیں روندے ڈالتے ہیں
خدا ہی اس چپ کی داد دے گا کہ تربتیں روندے ڈالتے ہیں
اجل کے مارے ہوئے کسی سے نہ بولتے ہیں نہ چالتے ہیں
ذلیل ہوتے ہیں عیب ہیں خود جو عیب اس میں نکالتے ہیں
انہیں کے اوپر ہی خاک پڑتی جو چاند پر خاک ڈالتے ہیں
تلون عیش و غم سے باہم زمین یہ ننگ آسماں ہے
کہ منہ سے ہم خون ڈالتے ہیں وہ رنگ نو روز اچھالتے ہیں
نہ گھر کے مانند ماہ ہر شب مزے اڑاتے ہیں ہمدموں سے
قرار فردا کا روز کر کے ہمیں قیامت پہ ٹالتے ہیں
پیے ہوئے ہیں شراب ساقی چڑھی ہے مستیٔ پاکبازی
وہ بادہ کش میں مدام ساقی جو دخت رز کو کھنگالتے ہیں
مدام برہم مژہ کے آرے سروں پہ چلتے ہیں عاشقوں کے
بنا کے گیسوئے مشک بو کو وہ مانگ جس دم نکالتے ہیں
جلا رہے شمع بزم سائیں اٹھا کے پہلو سے اپنے ہم کو
رقیب کو مثل دل بغل میں میان محفل بٹھالتے ہیں
کسی کو باتوں میں ہیں لگاتے کسی کو فقروں میں ہیں اڑاتے
کلیم سے ہم کلام ہو کر مسیح کو دم میں ٹالتے ہیں
بساط الفت ہے وہ نرالی جہاں میں جاں باختہ کھلاڑی
جوا بھی یہ بت جو کھیلتے ہیں تو دل کی کوڑی اچھالتے ہیں
جنوں کی بد نامیاں ہیں جتنی ہم آپ اے شادؔ اٹھا رہے ہیں
نہ تھونپے کوہ کن کے سر ہیں نہ قیس و وامق پہ ڈھالتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |