خدا معلوم کس کی چاند سے تصویر مٹی کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
خدا معلوم کس کی چاند سے تصویر مٹی کی
by آغا حجو شرف
303904خدا معلوم کس کی چاند سے تصویر مٹی کیآغا حجو شرف

خدا معلوم کس کی چاند سے تصویر مٹی کی
جو گورستاں میں حسرت ہے گریباں گیر مٹی کی

نوازی سرفرازی روح نے تصویر مٹی کی
خوشا تالع خوشا قسمت خوشا تقدیر مٹی کی

حقیقت میں عجائب شعبدہ پرداز دنیا ہے
کہ جو انسان کی صورت تھا وہ ہے تصویر مٹی کی

جسے رویا میں دیکھا تھا ملایا خاک میں اس نے
مقدر نے ہمارے خواب کی تعبیر مٹی کی

مزاروں میں دکھا کر استخواں حسرت یہ کہتی ہے
کوئی پرساں نہیں ان کا یہ ہے توقیر مٹی کی

یہ ناحق برہمی ہے خاکساروں کے غباروں سے
خرابی آندھیوں نے کی ہے بے تقصیر مٹی کی

وہ وحشی تھا کہ مر کے بھی نہ میدان جنوں چھوٹا
مری میت رہی صحرا میں دامن گیر مٹی کی

نہ لی تربت کو گلشن میں جگہ لی بھی تو صحرا میں
ریاضت سب ہماری تو نے اے تقدیر مٹی کی

مرے صیاد نے جس جس جگہ تودہ بنایا تھا
وہاں جا جا کے بو لیتے پھرے نخچیر مٹی کی

ازل کے روز سے غش ہیں جو انساں خاکساری پر
سرشت ان کی ہے مٹی سے یہ ہے تاثیر مٹی کی

یہ عالم ہو گیا ہے جمتے جمتے گرد صحرائی
کہ مجنوں پوچھتا ہے کیا یہ ہے زنجیر مٹی کی

ہمارے خاک کے تودے کو نابود آ کے کر دیں گے
نشانی بھی نہ چھوڑیں گے تمہارے تیر مٹی کی

اجازت سے تمہاری گفتگو کی سنگریزوں نے
برابر سننے والوں نے سنی تقریر مٹی کی

گلی میں یار کی ایسے ہوئے ہو گرد آلودہ
کہ بالکل ہو گئے ہو اے شرفؔ تصویر مٹی کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse