خدا جانے کہاں ہے اصغرؔ دیوانہ برسوں سے
خدا جانے کہاں ہے اصغرؔ دیوانہ برسوں سے
کہ اس کو ڈھونڈھتے ہیں کعبہ و بت خانہ برسوں سے
تڑپنا ہے نہ جلنا ہے، نہ جل کر خاک ہونا ہے
یہ کیوں سوئی ہوئی ہے فطرت پروانہ برسوں سے
کوئی ایسا نہیں یا رب کہ جو اس درد کو سمجھے
نہیں معلوم کیوں خاموش ہے دیوانہ برسوں سے
کبھی سوز تجلی سے اسے نسبت نہ تھی گویا
پڑی ہے اس طرح خاکستر پروانہ برسوں سے
ترے قربان ساقی اب وہ موج زندگی کیسی
نہیں دیکھی ادائے لغزش مستانہ برسوں سے
مری رندی عجب رندی مری مستی عجب مستی
کہ سب ٹوٹے پڑے ہیں شیشہ و پیمانہ برسوں سے
حسینوں پر نہ رنگ آیا نہ پھولوں میں بہار آئی
نہیں آیا جو لب پر نغمۂ مستانہ برسوں سے
کھلی آنکھوں سے ہوں حسن حقیقت دیکھنے والا
ہوئی لیکن نہ توفیق در بت خانہ برسوں سے
لباس زہد پر پھر کاش نذر آتش صہبا
کہاں کھوئی ہوئی ہے جرأت رندانہ برسوں سے
جسے لینا ہو آ کر اس سے اب درس جنوں لے لے
سنا ہے ہوش میں ہے اصغرؔ دیوانہ برسوں سے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |