خاک کر ڈالیں ابھی چاہیں تو مے خانہ کو ہم
Appearance
خاک کر ڈالیں ابھی چاہیں تو مے خانہ کو ہم
ایک ساغر کو بھرو تم ایک پیمانے کو ہم
مجھ سے ہم آغوش ہو کر یوں کہا اور سچ کہا
ہوشیار اس طرح کر دیتے ہیں دیوانے کو ہم
نزع میں آئے ہیں صد افسوس جیتے جی نہ آئے
وہ ہیں آنے کو تو اب تیار ہیں جانے کو ہم
بے نتیجہ ان پہ مرنا یاد آتا ہے ہمیں
شمع پر جب دیکھتے ہیں مرتے پروانے کو ہم
کوہ کن اور قیس کی قبروں سے آتی ہے صدا
کیا مکمل کر گئے الفت کے افسانے کو ہم
ایک پتا بھی نہیں ہلتا بجز حکم خدا
کس طرح آباد کر لیں اپنے ویرانے کو ہم
ایک دن یہ ہے کہ ہیں اک شمع رو پر خود نثار
ایک دن وہ تھا برا کہتے تھے پروانے کو ہم
ابرووں نے سچ کہا اس کے اشارہ کی ہے دیر
دیکھتے بالکل نہیں پھر اپنے بیگانے کو ہم
جان جائے یا رہے اس کو سنائیں گے ضرور
قیس کے پردہ میں پرویںؔ اپنے افسانے کو ہم
This work is in the public domain in the United States but it may not be in other jurisdictions. See Copyright.
| |