Jump to content

حضرت عشق ادھر کیجے کرم یا معبود

From Wikisource
حضرت عشق ادھر کیجے کرم یا معبود
by انشاء اللہ خان انشا
294610حضرت عشق ادھر کیجے کرم یا معبودانشاء اللہ خان انشا

حضرت عشق ادھر کیجے کرم یا معبود
بال گوپال ہیں یاں آپ کے ہم یا معبود

بندہ خانہ میں اجی لائیے تشریف شریف
آ کے رکھ دیجے ان آنکھوں پہ قدم یا معبود

نفی اثبات کی شاغل جو قلندر ہیں سو وہ
اپنی گردن کو نہیں کرتے ہیں خم یا معبود

اپنے داتا کی حقیقت کے ہیں جلوہ تم میں
لمعۂ نور تجلی کی قسم یا معبود

جلد پھٹکارئے سبزے کے نشہ کو کوڑا
کھینچیے اور کوئی سلفے کا دم یا معبود

آپ ہی آپ ہیں وہ آپ نے سچ فرمایا
یوں بھی کچھ دھوکے سے تھے نام کو ہم یا معبود

ورنہ یہ عاریتاً ہے جو وجود اپنا سو
گزراں وہ تو ہے جوں موجۂ یم یا معبود

واقعی بولنے سے اپنے لڑا بیٹھے جو آنکھ
کیوں خودی سے نہ کرے پھیر وہ رم یا معبود

آنکھ کو کہتے عرب عین ہیں سو عین اگر
دم پر آ جائے تو ہو عین عدم یا معبود

رات تریاک نشہ نے تو الٹ ڈالا واہ
کوئی گھولا تو وہ تھا کاسۂ سم یا معبود

سدرہ تک آن تو پہونچا ہوں دلی قصد ہے یہ
کہ بڑھوں اور بھی دو چار قدم یا معبود

چار زانو ہو اب انشاؔ بھی زمیں سے اونچا
یک و جب رہنے لگا سادہ کی دم یا معبود


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.