حسن نے مان لیا قابل تعزیر مجھے
Appearance
حسن نے مان لیا قابل تعزیر مجھے
نظر آئی ہے محبت کی یہ تقصیر مجھے
کیوں نہ ہو بادۂ سرجوش کی توقیر مجھے
مل گئی پیر خرابات سے تحریر مجھے
جلوۂ حسن کے مفہوم پہ جب غور کیا
ایک دھندلی سی نظر آئی ہے تصویر مجھے
اب مری وحشت رسوا کا عجب عالم ہے
کر دیا آپ نے وابستۂ زنجیر مجھے
بے تکلف رخ زیبا سے اٹھائے وہ نقاب
حسن خود پائے گا ایک پیکر تصویر مجھے
زندگی اک نئے عالم میں نظر آتی ہے
لے چلی آج کہاں گردش تقدیر مجھے
کھچ گئی دل کشئ حسن مری نظروں میں
جی بہلنے کو ملی آپ کی تصویر مجھے
زلف شب گوں رخ انور کی ستائش کو سوا
کوئی مضمون نہ ملا قابل تحریر مجھے
حسن دل کش کے تلون پہ نظر جب پہنچی
نہ رہا پھر گلۂ گردش تقدیر مجھے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |